• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں رائج جمہوریت سراپا پابہ جولاں نظر آتی ہے لیکن جب برسر اقتدار ہوتے ہیں تو اسی جمہوریت کو یہ حُسن کی دیوی کہتے نہیں تھکتے، یہی وجہ ہے کہ جمہوریت خالص ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ آئے روز کی ’بدعتوں‘ سے اُس کی شکل جہاں بھر کی جمہوریتوں کے قطعی برعکس ہو گئی ہے۔ بقول امام بخش ناسخ۔

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

آئیے! اس سلسلے میں گزشتہ دنوں لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹیول میں کی گئی چند مخصوص تقاریر پر بات کرتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک عرصے بعد فیسٹیول کو عوامی بنایا گیا، وگرنہ قبل ازیں اسے اُس اشرافیہ نے یرغمال بنا رکھا تھا جن کے خلاف فیض صاحب جدوجہد کا درس دیتے رہے۔ روزنامہ جنگ کی خبر کے مطابق فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے افراسیاب خٹک کا کہنا تھا ’’ریاست میں بحران اس لئے ہے کہ آئین کی عملداری کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ٹیسٹ ٹیوب سیاستدانوں کے پاس سب کچھ چلا گیا ہے۔ پہلے صدارتی نظام کی چھتری کو تانا گیا بعد ازاں مارشل لا کا پیوند لگایا گیا، آج جمہوریت بھی پیوند زدہ ہو گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی کا فائدہ عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ عوام ہی اصل مالک ہیں، اختیارات غاصبوں سے عوام کو واپس لینا ہوں گے ورنہ پی ٹی ایم بنتی رہیں گی۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر اصلاحات لانا پڑیں گی‘‘۔ جناب رضا ربانی نے کہا ’’ریاست بحران کا شکار ہے، اقتدار نہ پہلے سول حکومت کے پاس تھا اور نہ اب ہے۔ ستر برسوں سے پاکستان میں اقتدار دو فریقوں میں بٹا ہوا ہے، اسی وجہ سے نہ جمہوریت مضبوط ہوئی اور نہ ہی جمہوری ادارے پنپ پائے‘‘۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو نیا سیاسی کنٹریکٹ کرنا اور نیا ایجنڈا دینا ہوگا۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور جناب رضا ربانی اپنی جماعت کا اگر سرسری مگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور اس تناظر میں سوچیں کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر آج وفاق کی علامت پیپلز پارٹی سکڑ کر صرف سندھ کے دیہات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے تو شاید اس سوال کا جواب آسان ہو سکے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کیوں پنپ نہیں پائی۔ حال ہی کی ایک اور مثال لیتے ہیں جب سینیٹ کے انتخابات ہو رہے تھے اور تمام سیاسی جماعتیں رضا ربانی پر متفق تھیں اس وقت جناب صادق سنجرانی نہ صرف یہ کہ پی پی کے اُمیدوار بنے، اور منتخب ہوئے بلکہ بعد ازاں اپوزیشن کے 64ارکان کی موجودگی میں تحریک عدم اعتماد ناکام بنا گئے، اگر اس کیوں کا جواب دیا جائے کہ وہ ’کیوں‘ رضا ربانی پر بھاری ثابت ہوئے اور ’کیوں‘ وہ تحریک عدم اعتماد میں سُرخرو ہوئے تو شاید اس سوال کےجواب میں آسانی میسر آ سکے کہ کیوں بقول رضا ربانی ’’جمہوریت پاکستان میں مضبوط نہیں ہو سکی ہے‘‘۔ رضا ربانی درست کہتے ہوں گے کہ تمام سول حکومتیں مجبور محض رہی ہیں لیکن آخر ان حکومتوں نے کرپشن کے ریکارڈ کس ’مجبوری‘ کے باوصف قائم کئے؟ جناب افراسیاب خٹک کی گفتگو اس باعث تو متاثر کن ہو سکتی ہے کہ اُن کی کمٹمنٹ جمہوریت سے ہمیشہ صرف قول کی حد تک نہیں رہی بلکہ بہ عمل بھی رہی ہے، لیکن جہاں تک بڑی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اس سلسلے میں کسی درخشندہ تاریخ کی حامل نہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جمہوریت پیوند زدہ ہو گئی ہے لیکن یہ پیوند کاری بھی سیاستدانوں ہی کے مرہون منت ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ انتخابات سے قبل نام نہاد جمہوریت کی علمبردار تقریباً ہر جماعت کی کوشش یہی تھی کہ اُن کو کوئی ’ہڈی‘ مل جائے۔ اگر کسی نے کل ’نظرِ کرم‘ کی خاطر ’کالا کوٹ‘ زیب تن کر لیا تھا تو 2018ء کے انتخابات میں کوئی اور ’داعی جمہوریت‘ اُن سے حساب بے باق کرنے کے نام پر اس عمل میں پیوند لگانے کیلئے خود کو پیش کئے ہوئے تھا۔ کون نہیں جانتا کہ دنیا میں بڑی بڑی آمریتیں سیاستدانوں کی سچی کمٹمنٹ کی وجہ سے آج قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ پاکستان میں سچے نظریات کی آبیاری اس لئے ممکن نہیں ہو سکی کہ سیاست پر اُن طبقات کا قبضہ دراز ہے جن کے خمیر میں عوام کے استحصال کے سواکوئی اور مٹی شامل ہی نہیں ہے۔ خٹک صاحب کا یہ کہنا بجا کہ سب کچھ ٹیسٹ ٹیوب سیاستدانوں کے پاس چلا گیا ہے مگر یہ حالات کا جبر نہیں۔ آج ایک نوخیز مراد سعید کے ترکی بہ ترکی جواب سے اگر معمر سیاستدانوں کی ’شامیں‘ خراب ہو جاتی ہیں تو یہ ان بزرگانِ سیاست کے اعمال حُسنہ کا ہی کیا دھرا ہے کہ اس مملکت کے نظام میں استحکام نہیں آسکا۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ کی یہ تجویز صائب! کہ سیاسی جماعتوں کو نیا کنٹریکٹ کرنا ہوگا مگراس کی ضمانت کون دے گا کہ اس کنٹریکٹ کا حشر میثاق جمہوریت جیسا نہ ہوگا۔

تازہ ترین