• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں کراچی میں اسلامک چیمبر آف کامرس اور اقتصادی تعاون تنظیم چیمبر آف کامرس کے 13سے 16نومبر تک فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس (FPCCI) کی میزبانی میں ہونے والے اجلاسوں کے دوران ’’انویسٹمنٹ برج‘‘ کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں اسلامی ممالک نے اپنے اپنے ملک میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع پر پریذنٹیشنز دیں۔ 

کانفرنس کے دوران کیلیگرافی نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا جس کا افتتاح گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کیا۔

اقوام متحدہ کے بعد آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (OIC) دنیا کا دوسرا بڑا بلاک ہے جس کے 57ممبر اسلامی ممالک کی مجموعی آبادی 1.8ارب ہے۔ او آئی سی میں عرب لیگ کے ممبر ممالک بھی شامل ہیں۔ 

او آئی سی کا پہلا اجلاس 1969ء میں الاقصیٰ مسجد پر حملے کے بعد ہوا تھا جس میں 24اسلامی ممالک نے مراکش کے دارالحکومت رباط میں اسلامی ممالک کے مابین تعاون کیلئے او آئی سی کی بنیاد رکھی۔ 

او آئی سی کی زیادہ تر قراردادیں صرف ڈکلیریشن تک محدود ہیں اور ممبر ممالک ان پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔ مئی 1976ء میں او آئی سی وزرائے خارجہ کی استنبول کانفرنس میں اسلامک چیمبرز آف کامرس انڈسٹریز اینڈ ایگریکلچرکے قیام کی منظوری دی گئی اور 1979ء میں اسلامک چیمبرز آف کامرس انڈسٹریز اینڈ ایگریکلچر (ICCIA) کا قیام عمل میں آیا جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں قائم کیا گیا۔ 

اسلامک چیمبر کے قیام کا مقصد او آئی سی کے ممبر ممالک کے مابین صنعت و تجارت اور ایگریکلچر کو فروغ دینا ہے۔ اسلامک چیمبر کے موجودہ صدر شیخ صالح عبداللّٰہ کامل اور سیکریٹری جنرل میرے دوست یوسف حسن خلاوی ہیں۔ چیمبر کے اول نائب صدر قطر کے شیخ خلیفہ بن جاسم محمد التھانی، نائب صدور ترکی کے رفعت حصار چغلو اور مصر کے احمد الوکیل ہیں جو اپنے ممالک کی نہایت اہم شخصیات ہیں۔ 

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 57اسلامی ممالک میں سے 34ممالک بھارت کے ساتھ اہم تجارتی پارٹنر ہیں۔ بھارت اسلامی ممالک کو تقریباً 81ارب ڈالر کی اشیاء فروخت کرتا ہے جبکہ اسلامی ممالک پیٹرولیم مصنوعات سمیت 127ارب ڈالر کی اشیاء بھارت ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ 

اس طرح اسلامی ممالک کیلئے بھارت 127ارب ڈالر کی پرکشش مارکیٹ ہے جن میں سرفہرست 10ممالک میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، عراق، ملائیشیا، ایران، نائیجیریا، قطر، بنگلہ دیش اور کویت شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر ملائیشیا اور ترکی کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ 

غیر اسلامی ممالک میں چین 69 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ اور 15 ارب ڈالر کی امپورٹ کے ساتھ بھارت کا دوسرا جبکہ امریکہ 23 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ اور 44ارب ڈالر کی امپورٹ کے ساتھ تیسرا بڑا پارٹنر ہے۔اسلامی ممالک کے مابین موجودہ تجارت دنیا کی مجموعی تجارت کا 17 فیصد ہے جس کو پہلے مرحلے میں بڑھاکر 20 فیصد کیا جانا ہے۔ 

اسلامی ممالک کی تجارت میں سرفہرست 10 ممالک کا حصہ 70 فیصد ہے جس میں پہلے نمبر پر متحدہ عرب امارات، دوسرے پر ترکی، تیسرے پر سعودی عرب، چوتھے پر ایران، پانچویں پر انڈونیشیا، چھٹے پر ملائیشیا، ساتویں پر پاکستان، آٹھویں پر مصر، نویں پر عراق اور دسویں نمبر پر شام ہے۔ اسلامی ممالک کی فہرست میں آخری 20 ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں امپورٹ پر اضافی کسٹم ڈیوٹی نافذ کر رکھی ہیں جس کے باعث ان اسلامی ممالک کی تجارت نہایت کم ہے۔

اسلامی ممالک کی تنظیم برائے تعاون(OIC) میں شامل مسلم ممالک کی مجموعی جی ڈی پی 6 ٹریلین ڈالر ہے جو دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً8فیصد ہے جبکہ اسلامی ممالک کی دنیا کی مجموعی برآمدات 12 فیصد اور درآمدات 10 فیصد ہے۔ 

گزشتہ پانچ سالوں میں اسلامی ممالک کی جی ڈی پی گروتھ اوسطاً5 سے 6 فیصد رہی ہے۔2002ء میں اسلامی ممالک کے مابین ترجیحی تجارت کے معاہدے PTA پر کام شروع کیا گیا تھا اور 2011ء میں مسلم ممالک PTA کے تحت رعایتی ٹیرف اور مراعات دینے پر رضامند ہوئے لیکن 41 ممالک میں سے صرف 13ممالک نے اس معاہدے پر پیشرفت کی جبکہ دیگر ممالک کی طرف سے یہ اہم معاملہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔ 

پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر میں نے اپنی پریزنٹیشن میں بیرون ملک سے آئے ہوئے مندوبین کو بتایا کہ پاکستان 21کروڑ آبادی، بے پناہ تجارتی، سیاحتی، صنعتی پوٹینشل اور افرادی قوت کا حامل ملک ہے۔ 

اسلامی ممالک پاکستان کے موجودہ پوٹینشل سے فائدہ اٹھاکر افرادی قوت اور دفاعی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔یورپ میں حلال پروڈکٹس کا بزنس تقریباً66 ارب ڈالر ہے ۔ امریکی مسلمان تقریباً 13ارب ڈالر سالانہ حلال فوڈ پر خرچ کرتے ہیں۔ 

خلیجی ممالک کی حلال فوڈ کی درآمدات سالانہ تقریباً 44ارب ڈالر کی ہیں۔ بھارت میں حلال فوڈ کی فروخت21ارب ڈالر سالانہ جبکہ انڈونیشیا میں حلال پروڈکٹس کی درآمدات 70ارب ڈالر سالانہ سے زائد ہے۔

پاکستان کا لائیو اسٹاک سیکٹر اسلامی ممالک کی دودھ اور دیگر حلال مصنوعات کی ضروریات پوری کرکے خطیر زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کے ترجیحی سیکٹرز میڈیکل اور مذہبی ٹورازم، آئی ٹی، تعمیرات کے شعبوں کو بھی فروغ دے کر خطیر زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین