• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان کی زندگی میں کبھی کبھی کوئی ایسا لمحہ آتا ہے، جو زندگی سنوارنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسے ہی کچھ لمحات کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ آپ کی نذر کررہی ہوں۔

میں بچپن میں بےحد شرارتی تھی، گھر، محلّے اور اسکول میں کوئی میری شرارتوں سے محفوظ نہ تھا۔ ناپسندیدہ حرکتوں کے باعث ہر کوئی مجھ سے نالاں رہتا ۔ گھر میں سب سے چھوٹی تھی، اس لیے سوائے بابا جان کے ہرکوئی مجھے ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتا تھا، جس کی وجہ سے میں مزید ضدی ہوجاتی۔ ایک روز امّی جان ہمسائی سے میری شرارتوں کے قصّے بیان کررہی تھیں اور میں بھی ساتھ ہی بیٹھی ہمہ تن گوش تھی۔ امّی کہہ رہی تھیں، ’’بہن! کیا بتائوں، یہ میری بیٹی نہیں، آسمانی آفت ہے۔‘‘ سچّی بات ہے، مجھے یہ قصیدہ گوئی بہت بُری لگی۔ 

یکے بعد دیگرے جب وہ میرے چیدہ چیدہ دیگر اوصاف بیان کرچُکیں، تو پڑوسن نے عجیب نظروں سے مجھے گھورا اور کانوں کو ہاتھ لگاکر چلتی بنیں۔ پھر تو میں نے بھی کوئی سیدھی حرکت نہ کرنے کی گویا قسم کھالی۔ بہرحال، میری شرارتوں کا سلسلہ جاری رہا، تاہم جیسے جیسے بچپن گزرتا گیا، میری دیگر عادتیں تو چھوٹتی گئیں، مگر ایک بُری عادت میٹرک تک پہنچنے کے باوجود نہ چُھوٹ سکی، اور وہ تھی زورسے لات مار کر دروازہ کھولنے کی عادت۔ گھر میں اکثر جب مہمانوں کے سامنے یہ حرکت سرزد ہوجاتی، تو مجھے تو کوئی خاص ندامت نہ ہوتی، مگر گھر والوں کو بڑی شرمندگی ہوتی۔ 

فوراً ہی اپنی خفت مٹانے کے لیے کہہ دیتے، ’’اے ہے ہماری اسماء کی عادت ہی ایسی ہے، دسویں کلاس میں پہنچ گئی ہے، مگردروازہ پائوں سے کھولتی ہے۔‘‘ خیر، ایک روزمَیں چند کلاس فیلوز کے ساتھ کینٹین سے واپس آرہی تھی، سب سے آگے میں ہی تھی، دوسری کلاس فیلوزپیچھے تھیں کہ جیسے ہی کلاس روم کا دروازہ آیا، میں نے حسبِ عادت پیر سے زور دار دھکادیااور دروازہ دھڑام کی آواز کے ساتھ دیوار سے جاٹکرایا۔ کلاس شروع ہوچکی تھی۔ اچانک یوں دروازے کے دیوار سے ٹکرانے کی خوف ناک آواز سے کلاس میں موجود ساری لڑکیوں کی چیخیں نکل گئیں۔ اس دوران میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی، تو اوپر کی سانس اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئی۔ 

میرے سامنے ڈسپلن کی سخت پابند، کلاس انچارج، مِس نصرت شاہین کھڑی خوں خوار نظروں سے گھور رہی تھیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ مار نہیں، پیار کے اصول پر کاربند رہتی تھیں، مگر اُس روز برداشت نہ کرسکیں اورمجھے دو تھپّڑ جڑکر پورا پیریڈ کلاس سے باہر کھڑے رہنے کی سزا سنادی۔ اس عزت افزائی پر کلاس، خصوصاً اپنے گروپ کی لڑکیوں کے سامنے مجھے بےحد شرمندگی ہوئی اور مَیں اپنی اس حرکت سے اس قدر دل برداشتہ ہوئی کہ پکّا ارادہ کرلیا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گی۔ 

ہماری کلاس چوں کہ آفس کے ساتھ تھی، اس لیے آفس آتی جاتی ٹیچرز اور دیگر لڑکیاں بھی مجھے بے بسی کی تصویر بنے، شرارت کی سزا بُھگتتے دیکھتی رہیں۔ کوئی ہم دردی کرتا اور کوئی دانت نکال کر کہتا ’’اچھا ہے، سبق مل جائے محترمہ کو، باپ کے دروازے سمجھ رکھے ہیں، توڑنا حق سمجھتی ہے۔‘‘ مگر سیانے ٹھیک کہتے ہیں کہ بڑی سی بڑی بیماری چُھوٹ سکتی ہے، مگر عادتِ بد نہیں۔

چند روز بعد مَیں یہ عزت افزائی بھی بھول بھال گئی۔ ایک دن سب جماعت کی چند طالبات کے ساتھ صحن میں بیٹھے دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ فیئرویل پارٹی کے حوالے سے ڈسکشن کررہے تھے۔ میں اس دوران پانی پینے کلاس روم گئی، اور حسبِ عادت دروازے کو زور دار لات مارکے ابھی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ اچانک پیچھے سے آواز آئی۔ ’’کیوں بیٹا، دروازہ توڑنے کا ارادہ ہے کیا؟‘‘ جیسے ہی میں نے نظر اٹھائی، ہماری وہی انچارج، مِس نصرت شاہین چند لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھیں، اور اس وقت پارٹی سے متعلق لڑکیوں کو ہدایات دے رہی تھیں۔ 

میرے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں، دل ڈوب گیا کہ جانے اب کون سی سزا سنائی جائے گی، لیکن خلافِ توقع ٹیچر نے تھوڑا سے آگے آکر جو الفاظ کہے، وہ ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہوگئے،’’اسماء بیٹی! یہ یقیناً ایک بے ہودہ حرکت ہے۔ میں تو چلو معاف کردوں گی اور تمہارے گھر والے بھی شاید تمہاری ان حرکتوں کے عادی ہوچکے ہوں، مگر آگے کا کبھی سوچا ہے؟ اگر یہی عادت برقرار رہی، تو یقیناً تمہیں نہ صرف بہت شرمندگی اٹھانی پڑےگی، بلکہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، اگر ہوسکے، تو اس عادت پر فوری قابو پانے کی کوشش کرو۔‘‘ اُن کا شفقت بھرا متبسّم لہجہ میرے لیے ’’نسخۂ کیمیا‘‘ ثابت ہوا۔ اُن کے پیار بھرے نصیحت آمیز انداز سے متاثر ہوکر میں نے اُس دن کے بعد دروازے کو پیر سے دھکّا مار کر کھولنا چھوڑدیا۔ 

اب ہمیشہ بہت آہستہ دروازہ کھولتی ہوں اور اکثر دروازہ کھولتے ہوئے مِس نصرت شاہین کا متبسّم چہرہ سامنے آجاتا ہے ’’کیوں بیٹی! آگے کا کبھی سوچا ہے؟‘‘ یقیناً مار سے کوئی نہیں سدھر سکتا، تنبیہہ کے لیے پیار ہی قیمتی ہتھیار ہے کہ وہ مار سے تو پہلے بھی سمجھا چکی تھیں۔ لہٰذا میری گھر والوں اور تمام تر اساتذہ سے استدعا ہے کہ معمارانِ قوم کو تشدّد سے نہیں، ہمیشہ پیار سے سمجھائیں۔

(اسماء خان دمڑ، سنجاوی ،بلوچستان)

تازہ ترین