• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست میں حادثے بھی ہوتے ہیں اور معجزے بھی۔یہ کیسا اتفاق تھا کہ ایک بڑے صنعت کار کے گھر ایک ایسا بیٹا پیدا ہوا جو پینتیس سال کی عمر میں سیاست میں داخل ہوا اور اپنی آئندہ کی پینتیس سالہ سیاسی زندگی میں اس نے پاکستان کے اندر ایک زبردست انقلاب برپا کیا، معیشت کو ترقی دی، ایک مضبوط انفراسٹرکچر تعمیر کیا، عوام کے لیے معیاری تعلیمی ادارے پسماندہ علاقوں میں قائم کیے اور عوام کے حقوق بحال کئے۔اس نوجوان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ عمر قید کی سزا اور طویل جلاوطنی کو بڑی پامردی سے برداشت کرے گا اور اپنے موقف پر مستقل مزاجی سے قائم رہے گا۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ آٹھ دس برسوں میں نواز شریف کی سیاست ختم ہو جائے گی، مگر وہ جب وطن واپس آئے تو عوام نے اُن کی جماعت کو پنجاب میں کرسیٔ اقتدار پر بٹھا دیا۔ اُنہوں نے اِس پروپیگنڈے کا ذرہ برابر اثر قبول نہیں کیا جس میں شریف برادران پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ نواز شریف اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ شہباز شریف کے حصے میں آئی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سال کی محنت سے پاکستان کے اندھیرے ختم کیے اور چین کو پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے مائل کیا۔ اِن کوششوں سے معیشت کی نشوونما تقریباً چھ فیصد تک پہنچ گئی، چنانچہ نوجوانوں پر وسیع روزگار کے دروازے کھلتے گئے اور افراطِ زر کم ترین سطح پر آ گیا جس کے باعث مہنگائی کنٹرول میں رہی۔ شرح سود کم ہونے کے باعث درمیانے طبقے کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بیشمار مواقع ملے۔

خوش قسمتی سے اکیسویں صدی کے اوائل میں قومی سیاسی اپروچ میں بنیادی تبدیلیاں آئیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور جناب نواز شریف نے شدت سے محسوس کیا کہ سیاسی جماعتوں کے مابین چپقلش نے جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے چنانچہ اے آر ڈی کے تحت سیاسی رہنماؤں نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے جس میں عہد کیا گیا کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے انتخابی مینڈیٹ کا احترام کریں گی۔

2013ء میں نوازشریف تیسری بار وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اُن کی حکومت جس تیزی سے سی پیک کے منصوبوں پر عمل پیرا تھی اور ساتھ ہی ساتھ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھی، اس نے حریف سیاسی جماعتوں میں تشویش پیدا کر دی ۔ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر نریندر مودی اُن کی نواسی کی شادی میں خود چل کر جاتی امرا آئے۔ اِس سے پہلے جنوری 1999ء میں وزیراعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے تھے اور اُنہوں نے مینارِ پاکستان پر پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے احترام کا اعلان کیا تھا۔ تب ہی مختلف ایشوز سامنے آنے لگے اور نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے یہ نعرہ گونجنے لگا ’مودی کا جو یار ہے، پاکستان کا غدار ہے‘۔ پھر یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ شریف برادران ملک لُوٹ کر کھا گئے ہیں۔ اِسی دوران پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا اور عدالتِ عظمیٰ نے اُنہیں پاناما کے بجائے اقامہ پر عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ احتساب عدالت نے اُن کی غیر موجودگی میں سات سال کی سزا سنا دی۔ وہ اُس وقت اپنی بیٹی مریم کے ساتھ لندن میں تھے جہاں اُن کی اہلیہ کلثوم نواز بسترِ مرگ پر تھیں۔ سزا کی خبر سن لینے کے بعد وہ دونوں باپ بیٹی سزا بھگتنے کے لیے لاہور چلے آئے اور پھر جیل سے اُنہیں گرفتار کرکے نیب اپنے عقوبت خانے میں لے آیا جہاں اُن پر کئی بیماریوں نے یلغار کر دی۔ سرکاری ڈاکٹروں کے مختلف بورڈز نے بار بار رپورٹ دی کہ اُنہیں علاج کے لیے ملک سے باہر بھیجنا ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی بیماری کی شدت کا پورا اِحساس ہو گیا اور اُنہوں نے باہر جانے کی اجازت بھی دے دی مگر اُن کے بعض مشیروں نے سات ارب روپے کا بانڈ بھرنے کی شرط لگا دی۔ مرض کی سنگینی کے باعث مریض کے خاندان پر ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ تاہم انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ نواز شریف کے وقتِ سفر کے مناظر اب آنکھوں میں سما گئے ہیں اور مخالفوںنے جو انسان دشمن روش اپنائی ہے، اس پر افسوس ہی کیا جاسکتاہے۔اب مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ نے ہوا کا رخ تبدیل کر دیا ہے اور اِقتدار کے پتے ایک ایک کر کے جھڑتے محسوس ہورہے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان نے طیش میں آکر جو تقریر کی ہے، اس نےبڑے گہرے زخم لگائے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین