احمد فراز
میری فردوس و گل ولالہ و نسریں کی زمیں
تیرے پھولوں کی جوانی ترے باغوں کی بہار
تیرے چشموں کی روانی ترے دریائوں کا حسن
تیرے کہساروں کی عظمت ترے نغموں کی پھوار
کب سے ہیں شعلہ بدامان و جہنم بکنار
تیرے سینے پہ محلات کے ناسوروں نے
تیری شریانوں میں اک زہر سا بھر رکھا ہے
تیرا ماحول تو جنت سے حسین تر ہے، مگر
تجھ کو دوزخ سے سوا وقت نے کر رکھا ہے
تجھ کو غیروں نے سدا دست نگر رکھا ہے
ماہ و انجم سے تراشے ہوئے تیرے باسی
ظلم و ادبار کے شعلوں میں جہاں سوختہ ہیں
قحط و افلاس کے گرداب میں غرقاب عوام
جن سے تقدیر کے ساحل بھی برافروختہ ہیں
سالہا سال سے لب بستہ زباں دوختہ ہیں
ان کی قسمت میں رہی محنت و دریوزہ گری
اور شاہی نے تری خلد کو تاراج کیا
تیرے بیٹوں کا لہو زینت ہر قصر بنا
تجھ پر نمرود کی نسلوں نے سدا راج کیا
ان کا مسلک تھا کہ پامال کیا راج کیا
لیکن اب اے مری شاداب چناروں کی زمیں
انقلابات نئے دور میں لانے والے
حشر اٹھانے کو ہیں اب ظلم کے ایوانوں میں
جن کو کہتا تھا یہاں بوجھ اٹھانے والے
پھر تجھے ہیں گل و گلزار بنانے والے