احمد ندیم قاسمی
ہر گُل کی جبین پُر شکن ہے
کشمیر لُٹا ہوا چمن ہے
پھولوں نے چھپا رکھا ہے ورنہ
زخموں سے اَٹا ہوا بدن ہے
ہونٹوں پہ تھمے ہوئے ہیں شعلے
آنکھوں میں جمی ہوئی جلن ہے
ہر فرد ہے درد و غم کی تاریخ
ہر چہرہ حکایتِ محن ہے
پھیلا ہوا ہاتھ برہمن کا ،
اس چاند کا مستقل گرہن ہے
جلتے ہوئے گھر چھنے ہوئے کھیت
ہر شخص وطن میں بے وطن ہے
……٭ ٭ …… ٭ ٭ …
سنتے ہیں سمندروں کے اُس پار
اقوام کی ایک انجمن ہے
آج اس کے اصول کے مطابق
ظالم ہے وہی جو خستہ تن ہے
آج اس کی روایتوں کی رُو سے
رہبر ہے وہی جو راہزن ہے
آج اس کی بلند مسندوں پر
ہر چور کے ہاتھ میں کفن ہے
حق بات تو خیر جرم تھا ہی ،
حق مانگنا بھی دِوانہ پن ہے
سچ کہتی ہیں سب غریب قومیں
یہ بزم بھی بزمِ اہرمن ہے
……٭ ٭ …… ٭ ٭ …
تاریخ الٹ رہی ہے اَوراق، کشمیر کی برف شعلہ زن ہے
تسلیم کہ ظالموں کے نزدیک ، کشمیر دریدہ پیرہن ہے
کشمیر کی مفلسی میں لیکن ،اب کیسا بلا کا بانکپن ہے
زخموں سے اَٹے ہوئے بدن پر ، یزداں کا جمال ضو فگن ہے
ہیں برقِ فشاں سلے ہوئے لب ، کاٹا ہوا ہاتھ تیغ زن ہے
ہر سمت پہاڑ کٹ رہے ہیں، ہر فرد شبیہِ کوہکن ہے
ہر دل میں گڑا ہوا ہے تیشہ ، لیکن یہی عشق کا چلن ہے
جو موت ہو زندگی کی خاطر، وہ زندگی کا کمالِ فن ہے