• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعمت علی

ماضی کے جھروکوں میں آج ہم جھانکتے ہیں، تو اللہ جھوٹ نہ بلوائے ماضی قریب کا عروس البلاد کراچی بھی کبھی اپنی اقدار، روایات، علمیت، تہذیب، دانش اور تاریخ کے حوالے سے الف لیلوی روایات کا حامل شہرتھا۔ سہ پہر ہوتے ہی شہر کی روایتی اقدار کی حامل سرگرمیوں کا آغاز ہوجاتا تھا۔ شہر کے پُر رونق علاقے صدر میں خصوصاً اور ملحقہ علاقوں میں معروف ریستوران، کیفے، کافی ہائوسز، بُک اسٹال، کتاب گھر، قہوہ خانے اور تھڑے آباد ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ 

زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی، سماجی، ادبی و ثقافتی اور فنونِ لطیفہ سے متعلق افراد اپنے اپنے روزگار سے فارغ ہوکر دن ڈھلے جہاں، پہنچتے تھے، ان میں نمایاں زیلینز کافی ہائوس، انڈیا کافی ہائوس، کیفے سینا، فریڈرک کیفے ٹیریا، بمبئی کیفے نشاط، سینٹرل، ریڈیو ہوٹل، درخشاں، سبحان اللہ ہوٹل، کیفے جارج، جہانگیر ریسٹورنٹ، کیفے جہاں، خیابان کافی ہائوس، شیزان، جبیس، ہانگ کانگ، سائوتھ چائنا، کیفے نیویارک، پرشین ریسٹورنٹ، انٹر پاک اِن، ٹونی اِن، عمر خیام، پیلس ون۔ٹو، کیفے گرانڈ، فورسیزن، خیرآباد، ہائیڈ ون۔ٹو، سیونتھ ڈے کافی ہائوس، ویلیج، ا، وغیرہ تھے، جن میں سے بیش تر آج معدوم ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ یا تو الیکٹرونک شو روم، موبائل فون کی دکانیں، ریڈی میڈ گارمنٹس و دیگر کاروبار نے لے لی ہے۔ 

شام ڈھلے یہاں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی تھیں، گو کہ اس قدر مہنگائی نہ تھی لیکن باوجود اس کے ہر شخص اپنی پسند، سوچ اور مالی حیثیت کے مطابق اپنے ہم عصر دانشوروں اور رہنمائوں و کارکنوں کے ساتھ ان جگہوں پر کافی، چائے کی پیالیوں میں طوفان اٹھایا کرتے اور تبدیلی اور روشن مستقبل کی نوید دیا کرتے تھے۔ فریئر روڈ فریسکو چوک تا ریگل چوک عجیب گہما گہمی ہوا کرتی تھی۔ 

راہ چلتے چلتے اگر کسی کیفے یا ہوٹل میں سستانے کو بیٹھنا ہوتا، تو قرب و جوار کی میزوں پر سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے ہوٹل کی فضاء میں اِدھر اُدھر آوارہ بادلوں کی طرح ڈولتے نظر آتے، تو کہیں کوئی دانشور دور کونے میں سگریٹ سلگائے ملک کے مستقبل پر نگاہیں گاڑے نظر آتا تو کہیں کسی کافی ہائوس کی ٹیبل پر سفید کُرتے پاجامے میں ملبوس شاعر اپنی گرج دار آواز میں حسن ناصر شہید کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا نظر آتا تھا، تو کسی کافی ہائوس میں ترقی پسند ادیب اپنے جدید افسانے پر ناقدانِ فن کی رائے سے استفادہ کررہا ہوتا۔ 

انجمن ترقی اردو میں کام کرنے والے اہل قلم میں سے ایک صاحب کرتا پاجاما پہنے بغل میں تھیلا دبائے کافی ہائوس میں داخل ہوتے اور اپنے ساتھیوں کو تاریخی پس منظر میں لکھی نئی کہانی الف لیلوی داستان گو کی طرح سناتے۔ اندازِ تحریر اور بیاں اس قدر مؤثر ہوتا کہ سامع خود کو تاریخ کے اُس دور میں محسوس کرتا۔ 

کوئی کارل مارکس کے فلسفے اور مائوزے تنگ کے اقوال سنا کر کمیونزم اور سوشلزم پر مبنی سماجی و معاشرتی نظام کے ذریعے ملک کو چودھویں صدی سے اکیسویں صدی کے خوشحال معاشرے کی نوید اور سماجی مساوات کے قیام کا منصوبہ دے رہا ہوتا۔ 

غرض کہ ان ہوٹلوں میں مختلف النوع مسائل پر بحث مباحثے ہماری روشن دماغی، ترقی پسندی و علم دانش سے وابستگی کی دلیل تھے۔ ان مباحث میں سیاسی کارکن، طلبہ، فن کار اِدباء و شعراء کا چائے کی پیالی پر متحرک ہونا ان میں پنہاں مسائل کی گتھیاں سلجھانا، معاشرے میں زندگی کی بڑی علامت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہی ہوٹلوں کے ارد گرد پولیس اور مختلف اداروں کے اہلکار و افسران بھی کسی نہ کسی حوالے سے سن گن لیتے نظر آتے یا ان کے گرد منڈلاتے رہتے۔

وہ عجیب سرمستی و سرشاری کا دور تھا جو آج بھی یاد آتا ہے تو دل بہت تڑپاتا ہے۔ وارفتگانِ شوق کا دور دور سے آکر اپنی مقررہ بیٹھکوں اور چائے خانوں میں محفلوں کو سجاتے، دنیا جہان کی باتیں کرتے اور ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے اپنے جذبوں کی بھٹی میں عقل کے انگارے دہکاتے تھے، پھر جب ماحول تیار ہوجاتا تھا تو وہ احباب دانش اپنے منصوبوں اور کارکنوں کا امتحان احتجاجی مظاہروں، جلوسوں، جلسے، اخباری بیانات کے ذریعے لیا کرتے اور اپنے کلام اور مضامین کے ذریعے حکم رانوں پر قلم کے نشتر چلاکے اس قدر ضرب پہنچاتے تھے۔ 

آج کا ماحول دیکھتے ہیں تو ہمیں ماضی کا وہ کراچی جو علم و ادب، سیاست، صحافت، ادب و دانش کا گہوارہ ہوا کرتا تھا کہ اب ہمیں ہمارا ماضی الف لیلیٰ کا ایک قصّہ ہی محسوس ہوتا ہے، گو کہ آج اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں تو حاصل کی جارہی ہیں، لیکن کہیں شعور نظر نہیں آتا، پڑھا لکھا بھی اجڈ نظر آتا ہے، اس پر بس یہی کہوں گا کہ اللہ خیرکرے۔

تازہ ترین