• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
جدید ٹیکنالوجی ،سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وجہ سے اب دنیا بھر میں ہونے والے انتخابات میں رائے عامہ بھی شدید متاثر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ انتخابی نتائج بھی اس انداز میں تبدیل ہو جاتے ہیں کہ ہارنے والوں کو یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ’’ہاتھ‘‘ ہوگیا ہے مگر انہیں اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی! چنانچہ مغرب میں تو ہارنے والوں کو اپنی شکست تسلیم کرنا پڑتی ہے مگر پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک میں ہارنے والے دھاندلی کا رونا روتے رہتے ہیں مگر اس کو ثابت نہیں کرپاتے۔ جدید دور میں دھاندلی نے بھی نئے انداز اختیار کرلئے ہیں اور بعض سیاستدان اپنے ووٹرز کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر مستقبل کی پروا کئے بغیر بعض ایسے نعرے لگا دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے وہ کامیاب تو ضرور ہو جاتے ہیں مگر اس سے معاشرے تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو خود امریکی انتخابات ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ سپر میسی کی بات کی اور انتخابات پر مکمل طور پر اثر انداز ہوگئے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد بھی انہوں نے سفید فاموں کو خوش کرنے کے لئے نہ صرف نعرے لگائے بلکہ عملی طور پر اقدامات بھی کئے۔ ان الزامات سے نہ صرف امریکہ بلکہ دوسرے ممالک خصوصاً یورپ میں بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یورپ میں بڑھتی ہوئی نسل پرسی دراصل امریکی آشیرباد کا ہی نتیجہ ہے امریکی صدر نے برطانوی انتخابات پر بھی اثر انداز ہونے کی گھنائونی کوشش کی ہے اور برطانیہ کو یورپ سے الگ کرنے کی خواہاں بریگزٹ پارٹی کو کنزرویٹو کا ساتھ دیتے کا مشورہ دیا جو اس نے من و عن قبول بھی کرلیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانیہ کو ایک بار پھر قومیت کے نام پر تقسیم کیا جارہا ہے اور گذشتہ تین سال کے دوران ملک کی اپوزیشن جس شرمناک بریگزٹ کو رکوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کیلئے امریکی صدر کے چہیتے نائجل فراج کنزرویٹو پارٹی
کاساتھ دے رہے ہیں۔ اگرچہ کنزرویٹو پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بریگزٹ یا کم از کم شرمناک بریگزٹ کے مخالف ہیں ماگر اس پارٹی میں ایسے لوگوں کی اکثریت موجود ہے جو بہرحال امریکی صدر کے نظریات سے متفق نظریہ کی ہے؟ اس پر مستعاریہ کے لیبر پارٹی کی مقبولیت کا گراف اوپر جائے ہی برطانیہ میں ایسا واقعہ ہوگیا کہ جس میں شریک ملزم کا براہ راست تعلق امیگرنٹس سے بنتا ہے اور بدقسمتی سے وہ مسلمان بھی ہے۔ چونکہ لیبر پارٹی امیگرنٹس کی حامی تصور کی جاتی ہے اس لئے اس طرح کے واقعات سے اس پارٹی کے متاثر ہونے کے خدشات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ لندن برج میں ہونے والا حملہ محض اتفاق ہو مگر اس کی ٹائمنگ انتہائی معنی خیز ہے؟ اس ٹائمنگ نے ان انتخابات کا رخ بریگزٹ سے ہٹا کر دہشت گردی اور ایک قسم کی نسل پرستی کی طرف موڑ دیا ہے۔ اگرچہ برطانیہ کے عوام باشعور ہیں اوران ہی پارٹیوں کو ہی ووٹ دیں گے تاہم اس قسم کے واقعات ان لوگوں پر بڑے اثرات مرتب کرتے ہیں اور جو پارٹیوں میں نہیں ہوتے اور ان کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے اس سے معاشرے میں تقسیم پیدا ہوتی ہے جس کے دور رس اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تقسیم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک بھارت میں بھی پیدا ہوچکی ہے۔ جہاں پر انتخابات ہمیشہ پاکستان دشمنی کے موضوع پر لڑے جاتے رہے ہیں۔ ابھی حالیہ انتخابات میں موجودہ وزیراعظم مودی کی پارٹی پاکستان مخالفت میں سب سے آگے نکل گئی اور اس نے دوسری سیکولر پارٹیوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اس نے نہ صرف پاکستان کو برا بھلا کہا بلکہ انڈیا کو ہندو ریاست بنانے کا خوفناک منصوبہ بھی پیش کیا۔’’ہندو توا‘‘ کے اس نعرے نے بھارت کو پہلے ہی تقسیم کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں اس طوفان کا کس حد تک مقابلہ کرتی ہیں؟ ایک شرمناک بات یہ بھی ہے کہ بھارت کے ان انتخابات کی مہم میں امریکی صدر نے بھی حصہ لیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انڈیا میں ہندو توا اور مغرب میں وائٹ سپر میسی چاہتے ہیں؟ ان حالات میں برطانوی انتخابات کا کیا بنے گا کوئی نہیں جانتا، البتہ تمام تر مشکلات کے باوجود لیبر پارٹی کی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی ہے جو ملک میں کٹوتیاں کا خاتمہ اور ایک باوقار بریگزٹ کی حامی ہے جبکہ اس کے ایجنڈے پر اس حوالے سے ایک اور ریفررنڈم کرانے کا امکان بھی رکھا گیا ہے۔
تازہ ترین