نواب شاہ میں قانون کے رکھوالے قانون کی دھجیاںبکھیرنے کے الزام میں وردی اورتمغوں سے محروم ہو گئے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس بے نظیر آباد ڈویژن مظہر نواز شیخ نے قوانین پر عمل نہ کرنے پر چھ تھانوں کے ایس ایچ او اور ہیڈ محرر کی تنزلی کرکے معطل کر دیا۔ معطل کئے جانے والے پولیس افسراں کو کمشنر بے نظیر آباد کے حکم کے تحت مہران ہائی وے پربھاری گاڑیاں روکنے کے احکامات کو نظر اندازکرنے پر معطل کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ کمشنر کی جانب سے احکامات جاری کئے گئے تھے کہ مہران ہائی وےپر حادثات کی روک تھام کے لئے اس سٹرک پرپر ہیوی ٹریفک کو بند کیا جائے اور قوانین کے مطابق ملک کے مختلف حصوں سے آنے والی اس ٹریفک کو نیشنل ہائی وے سے گزارا جائے۔ تاہم متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز اور ہیڈمحرر جوکہ ایس ایچ او کے احکامات پر عمل درآمد کروانے کے پابند ہیں، ان احکامات کو نظر انداز کردیا جس کی بناء پر چھ ایس ایچ اواور ہیڈ محرر کے عہدوں کی تنزلی کے بعد انہیں معطل کرکرکے تھانے سے ہٹادیا گیا ہے۔ معطل کیے جانےوالوں میں ایس ایچ او دوڑ پولیس اسٹیشن مقصود احمد چنہ ایس ایچ او تعلقہ پولیس اسٹیشن ریاض ملک ایس ایچ او باندھی پولیس اسٹیشن شبیر جمالی ایس ایچ اوکھڈہر پولیس اسٹیشن ثناء اللہ پنہور ایس ایچ او بالوں جاقبہ وسیم مرزا شامل ہیں ۔
اس سلسلے میں ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ نے جنگ کو بتایا کہ کمشنر سیدمحسن علی شاہ کی طرف سے آرڈر جاری ہونے کے بعد مہران ہائی وے سے متعلقہ چھ تھانوں کے اسٹیشن یا ہائی وے آفیسر ایس ایچ او اور ان کے ماتحت ہیڈ محرر کو ہیوی ٹریفک کو مہران ہائی کی بجائے نیشنل ہائی وے پر موڑنے کے احکامات دیئے گئے تھے۔ تاہم متعلقہ ایس ایچ او زنے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور با ربار کی تنبیہ کے بعدانہیں نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ ان کے عہدے کی تنزلی کرکے ان کا عہدہ گھٹا دیا گیا، اس طرح ہیڈ محرر کا عہدہ کو بھی کم کردیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ نے کہا کہ اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کی رپورٹ پر ان پولیس افسران کے خلاف کاروائی کی گئی ہےجس کا مقصد دوسرے افسران و اہل کاروں کو یہ پیغام دینا ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہے چاہیے وہ عام شہری ہو یہ کہ پولیس آفیسر ۔تاہم اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ کی جانب سے چھ ایس ایچ اوزکی معطلی اور ان کی تنزلی نے محکمہ پولیس میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے جب کہ اس اقدام سے ان پولیس افسراں کے حوصلے ضرور بلند ہوئے ہے جوکہ ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر ادا کر رہے ہیں
نیشنل ہائی وے پرہیوی ٹریفک کے باعث اس بات کی ٖضرورت تھی کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے علیحدہ سے ایسا راستہ بنایا جائے جوکہ بھاری گاڑیوں کی وجہ سے نہ صرف حادثات سے محفوظ ہوں جبکہ فاصلے کو بھی کم کیا ۔ اس سلسلے میں کراچی سے سکھر تک کا فاصلہ کم کرنے کے لئے سعیدآباد سے سکھر کے درمیان مہران ہائی وے تعمیر کیا گیاجس کا نیشنل ہائی وے کے مقابلے میں کراچی تا سکھر کا فاصلہ پونے دو گھنٹے کم ہو گیاتھا اور سعیدآباد سے سکھر تک اس سٹر ک کو سنگل لائن بنایا گیا جہاں چھوٹی گاڑیاں آسانی سے آجا سکتی ہوں ۔تاہم فاصلہ کم ہونے، تیل اور وقت کی بچت سے فائدہ اٹھا کربھاری گاڑی والوں نے بھی نیشنل ہائی وے کی شاہ راہ چھوڑ کر مہران ہائی وے کا رخ کیا۔اس طرح اس سڑک پر بھاری گاڑیوں کا اژدہام رہنےلگا ۔
اس سٹرک پرسفر کرنے والی والی کار، وین اور دیگر چھوٹی گاڑیوں والے پوری طرح بھاری ٹرالروں اور تیز رفتار کوچ کے رحم و کرم پر تھے۔ اس دوران بھاری گاڑیوں کی تیز رفتاری کی وجہ سے رونما ہونے والے حادثات میںدرجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔کمشنر بے نظر آباد اور ڈی آئی جی کے اقدامات کے بعد ٹصورت حال میں بہتری آئی ہے لیکن سعیدآباد سے سکھر تک اس سڑک پر ریسکیو سینٹر کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ اس شاہ راہ پر حادثات کے زخمیوں کو دوڑ باندھی کے اسپتالوں میں لایا جاتا ہے، جہاں طبی سہولتیں ناکافی ہونے کی وجہ سے زخمیوں کونواب شاہ پیپلز میڈیکل اسپتال پہنچایا جاتاہے ۔ لیکن اس دوران تاخیر ہونے کی وجہ سےاکثر لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔