• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بد نیتی پر مبنی افواہوں کا بہترین نعم البدل
(یائو چنگ)
(تحریر: پاکستان میں تعینات چینی سفیر)
سنکیانگ چین کا پاکستان سے قریب ترین مقام ہے۔ جب یہ کہا جا تا ہے کہ "چین اور پاکستان کی دوستی پہاڑوں سے بلند ہے"، تو اس سے مراد سنکیانگ اور پاکستان کے درمیان پھیلے قراقرم کے پہاڑی سلسلے سے لی جاتی ہے۔ سنکیانگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منبع اور شاہراہ ریشم اور ایک پٹی ایک شاہراہ کے اقدام کا مرکزی مقام ہونے کے ناطے سماجی استحکام، اقتصادی نشوو نماء اور عوام الناس کا معیار زندگی بہتر بنانے کے سنگ میل طے کئے ہیں۔
تاریخ میں خوشحالی کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔ تاہم دنیا میں چند ایسے عناصر اور افراد موجود ہیں جنہیں نہ چین کی پر امن ترقی ایک آنکھ بھاتی ہے اور نہ ہی مستحکم و روادار سنکیانگ۔ ایسے ممالک حقائق کے منافی مبہم واویلا کرتے ہیں اور چین کے اندرونی معاملات میں ڈھٹائی سے مخل ہوتے ہوئے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال کو دیدہ و دانستہ گھمبیر بناتے ہیں۔ ایسے ممالک چین کے اسلامی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور سنکیانگ کی دیرپا ترقی و استحکام کو کمزور کرنے کے درپے رہتے ہوئے چین کی جانب سے بنیاد پرستی اور دہشتگردی کے خلاف کاوشوں پر بہتان تراشی کرتے ہیں۔
حقائق کی آواز الفاظ سے بلند ہوتی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی سربراہی میں سنکیانگ اپنی پُرامن آزادی کے بعد70 برسوں میں بہت سی معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ سال 1952ء کے مقابلے میں 2018ء میں 200 گنا اضافے کے ساتھ سنکیانگ کی مجموعی اندرونی پیداوار ایک سو چوہتر اعشاریہ سات ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ۔ گزشتہ سال 1978ء کے مقابلے میں یہاں دیہی اور شہری آبادی کی فی کس آمدنی میں بالترتیب101 اور 99 گنا اضافہ ہوا۔ سنکیانگ کی معیاری اقتصادی ترقی میں سیاحت کا فروغ ایک اہم عنصر رہا۔
رواں سال کی نسبت 2018ء میں 40فیصد اضافے کے ساتھ 15 کروڑ افراد نے سنکیانگ کا دورہ کیا۔ سنکیانگ میں دینی فرائض کی ادائیگی کیلئے 24،400مساجد پر مشتمل 25000 مذہبی مقامات موجود ہیں۔ یہاں اوسطاً 530 مسلمانوں کیلئے ایک مسجد موجود ہے۔ سنکیانگ کی آبادی ڈھائی کروڑ افراد پر مشتمل ہے، جس میں اقلیتی آبادی کا تناسب مجموعی آبادی کا انسٹھ اعشاریہ نو فیصد ہے۔ یہاں تمام نسلی گروہ بھر پور قومی یکجہتی کی عکاسی کرتے ہوئے انار کے دانوں کی طرح باہم مل جل کر رہتے ہیں اور اپنی قومی و انفرادی زندگی سے مطمئین ہیں۔
سنکیانگ سے وابستہ مسائل کا تعلق انسانی حقوق، نسل یا مذہب سے نہیں بلکہ تشدد، دہشتگردی اور علیحدگی پسندی سے ہے۔ ماضی میں سنکیانگ انتہاء پسندی، تشدد اور دہشتگردی کا بری طرح شکار رہا۔ سال 1990ء کی دہائی سے لے کر 2016ء تک سنکیانگ علیحدگی پسندوں، مذہبی انتہاء پسندوں اور دہشتگردوں کے مشترکہ اثر و رسوخ کے تحت دہشتگردی کے ہزاروں پُرتشدد حملوں کا شکار رہا، جن میں بڑی تعداد میں معصوم شہری اور پولیس کے اہلکار لقمہء اجل بنے۔ دہشتگردی کے یہ حملے سنکیانگ میں تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کی جان و مال کیلئے نقصان ثابت ہوئے جن سے عوامی وقار پامال ہوا اور یہ واقعات سنکیانگ کی معاشی ومعاشرتی ترقی میں بھی بڑی حد تک رکاوٹ بنے۔ 5جولائی، 2009ء کو "مشرقی ترکستان موومنٹ" سے تعلق رکھنے والی ملکی اور غیر ملکی دہشتگرد قوتوں نے ارومچی میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ جیسے سنگین پر تشدد جرم کا ارتکاب کیا، جن میں مسلمانوں سمیت 197افراد ہلاک اور 1،700سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان واقعات نے نہ صرف پورے چین بلکہ دنیا کو بھی حیران کردیا۔
چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کی حکومت سنگین حالات کا سامنا کرتے ہوئے وحشیانہ اور دہشتگردی کے جرائم سے قانونی طور پر نبرد آزما ہوئی اور ان کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے اور سنکیانگ میں پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے مراکز کے قیام سمیت عدم بنیاد پرستی کے امور کو فعال طور پر فروغ دیا۔ ان اقدامات کا مقصد دہشتگرد اور انتہاء پسند قوتوں کے اثر و رسوخ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بھی بہتر بنانا تھا، جو پرتشدد اور انتہاء پسندانہ خیالات کا شکار ہونیوالے لوگوں کی راہنمائی کیلئے بھی مددگار ثآبت ہوتے ہیں۔ ان اقدامات کا نام نہاد "حراستی کیمپوں" سے کوئی تعلق نہیں۔ پرتشدد انتہاء پسندی کو روکنے کے اقدامات اقوام متحدہ کے لائحہ عمل سے بھی پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔ ان کاوشوں کی بدولت سنکیانگ میں گزشتہ تین سال کے دوران دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونماء نہیں ہوا۔ سنکیانگ میں مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے ڈھائی کروڑ افراد نے ان کوششوں کی حمایت کی ہے۔ یہ اقدام انسداد دہشتگردی کی عالمی کوششوں میں چین کی شراکتداری کا ثبوت ہے۔
چین قانون کی حکمرانی کا حامل ملک ہے۔ سنکیانگ میں دہشتگردی اور بنیاد پرستی کے خلاف جنگ قانون کی حکمرانی کی روح، تقاضوں، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ بین الاقوامی برادری چین کی سنکیانگ سے متعلق پالیسی کی معترف ہے۔ سال 2018ء کے آخر سے اب تک ایک ہزار سے زائد بین الاقوامی نمائندوں پر مشتمل 70 سے زیادہ گروہوں نے سنکیانگ کا دورہ کیا، جن میں اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے عہدیداران، پاکستان سمیت دیگر ممالک، خطوں، بین الاقوامی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے، مذہبی گروہ اور تعلیمی حلقے شامل ہیں۔
ان دوروں کے موقع پر تمام مذکورہ نمائندوں نے سنکیانگ کو نہ صرف خوبصورت بلکہ انتہائی محفوظ بھی قرار دیا۔ انہوں نے دہشتگردی اور بنیاد پرستی کے خلاف سنکیانگ کے تجربے کو قابل تقلید قرار دیا۔ رواں سال مارچ میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل نے ایک قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دی، جس میں مسلمان شہریوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے چین کی کوششوں کو سراہا گیا۔ جولائی میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں 50 سے زائد ممالک کے سفراء نے کونسل برائے انسانی حقوق کے صدر اور ہائی کمشنر کے نام ایک مشترکہ خط پر دستخط کئے، جس میں دہشتگردی کے خلاف چین کے اقدامات، انسانی حقوق کے تحفظ اور بنیاد پرستی کے خلاف کوششوں کی تعریف کی گئی۔
تازہ ترین