• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسپیشل برانچ نے وکلاء احتجاج کی اطلاع دیدی تھی، اقدامات نہیں کئے گئے

لاہور(نمائندہ جنگ)پی آئی سی سی حملے کے دوران پولیس کی مبینہ غفلت اور لاپروائی سے قیمتی جانوں کے نقصان کے ساتھ مالی نقصان بھی ہوا جبکہ دل کے مریض بھاگ بھاگ کر اپنی جانیں بچاتے رہے۔

معلوم ہوا ہے کہ پولیس کی جانب سے بروقت حکمت عملی اور سخت ایکشن لے لیا جاتا تو یہ افسوسناک واقعہ پیش نہ آسکتا تھا، اسپیشل برانچ نے وکلاء کے احتجاج کی اطلاع بروقت دے دی تھی تاہم اس کے باوجود پولیس کی جانب سے بروقت اقدامات نہیں کئے گئے۔

مشتعل وکلاء کی جانب سے اسپتال کا ستیا ناس کرنے کے بعد انسداد بلوافورس(اینٹی ریوٹس فورس) کو طلب کیا گیا ، واٹر کینن بھی 4گھنٹے تاخیر سے بلائی گئی۔

ایڈیشنل آئی جی پانعام غنی کا کہنا ہے کہ ہم وکلاء سے مذاکرات کے ذریعے معاملات کوپرامن طور پر حل کرنا چاہتے تھے ، وکلاء کے قانون ہاتھ میں لینے پر پولیس کی جانب سے کارروائی کی گئی ۔ 


پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی


تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ینگ ڈاکٹر عرفان کی جانب سے اشتعال انگیز ویڈیو کے بعد وکلاء نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی خبر اسپیشل برانچ اور دیگر خفیہ اداروں نے حکومت کو دے دی تھی جس کے باوجود پو لیس کی جانب سے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے، تاہم کچھ نفری کو پی اے سی میں تعینات کر دیا گیا تھا اس کے باوجود جب وکلاء نے اشتعال میں آکر توڑ پھوڑ اور پتھراؤ شروع کی تو اس کے جواب میں ہسپتال کے عملے نے بھی وکلاء پر حملہ کیا تو جس سے پی ایس سی میدان جنگ بن گیا، لیکن پولیس اِس کے باوجود خاموش تماشائی کا منظر پیش کرتی رہی ہیں بلکہ پولیس نے سائیڈ پر ہو کر مبینہ طور پر وکلاء کو کو آگے بڑھنے کا راستہ بھی دے دیا۔

اس دوران ہسپتال عملے کی جانب سے ہسپتال کے گیٹ بند کیے گئے تو وکلا نے زبردستی گیٹ کھول کر پی ایسی پر دھاوا بول دیاجس سے پی آئی سی کربلا کا منظر پیش کرنے لگا اس دوران بھی پولیس پراسرار خاموش رہی۔

یہاں تک کہ جب تین گھنٹے سے زائد کا وقت گزر گیا اور وکلاء دل کھول کر ہسپتال کا ستیاناس کر چکے تو اینٹی رائٹ فورس جو خصوصی طور پر احتجاج کو پرامن طریقے سے روکنے کے لیے بنائی گئی ہے اسے بلایا گیا جبکہ واٹر کینن کو بھی چار گھنٹے تاخیر سے بلایا گیا۔

معلوم ہوا ہے کہ اگر پولیس کی جانب سے یہ تمام اقدام بروقت پورے کر لئے جاتے تو وکلاء کی پیش قدمی کو فوری طور پر روکا جا سکتا تھا لیکن پولیس کی پراسرار خاموشی نے وکلا گردی کو تقویت دی اور وکلاء بغیر کسی روک ٹوک کے ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا یتے رہے، یہاں تک کہ وکلاء کی جانب سے فائرنگ کی بھی کی گئی جس کی فوٹیجز میڈیا پر چلتی رہیں۔

تازہ ترین