• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیدہ کلثوم شاہ۔ ۔۔لندن
ریاست جموں و کشمیر کے عوام بھارت اور پاکستان کی تخلیق کے مطالبے سے طویل عرصہ پہلے سے جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے تھے۔ موجودہ تحریک آزادی اسی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ اس کا تعلق اکھنڈ بھارت سے نہیں ہے۔ریاست جموں و کشمیر برصغیر میں دنیا کا حصہ ہے۔ بھارت و پاکستان کا اس کے اوپر جھگڑا ہے۔ یہ جھگڑا تاریخ کا پیدا کردہ ہے اور تاریخ ہی فیصلہ بھی بتائے گی۔ برصغیر پاک و ہند1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں دو حصوں برطانوی ہندوستان اور دیسی ہندوستان میں تقسیم ہوگیا تھا۔1۔ برطانوی ہندوستان براہ راست انگریزوں کی عملداری میں تھا اور17صوبوں پر مشتمل تھا۔2۔ دیسی ریاستی ہندوستان میں562ریاستیں شامل تھیں، ان پر مقامی راجے اور نواب وغیرہ حکومت کرتے تھے۔دیسی ریاستوں اور برطانوی حکومت کے درمیان تعلقات مختلف معاہدوں اور سمجھوتوں کی بنا پر قائم تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی سامراج جب ہندوستان کو آزادی دینے پر مجبور ہوگیا تھا تو کیبنٹ مشن1946ء کو ہندوستان آ پہنچا۔ 12مئی1946ء کو ریاستوں کے راجوں اور نوابوں کے چانسلر کو ریاستوں کے ساتھ معاہدوں اور سمجھوتوں اور برطانیہ کے اقتدار اعلیٰ کے بارے میں یادداشت پیش کی اور اس بات پر زور دیا کہ اقتدار کی منتقلی کے بعد برطانوی حکومت کی ذمہ داری ختم ہوجائے گی۔ ریاستوں کو اقتدار واپس مل جائے گا۔ ریاستیں برطانیہ کے واپس چلے جانے کے بعد قانونی اور تکنیکی طور پر آزاد ہوجائیں گی۔ وہ وفاقی حکومتیں بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرسکتی ہیں یا الحاق میں ناکامی کی صورت میں وہ وفاقی حکومتوں کے ساتھ خصوصی انتظامات کرسکتی ہیں۔کیبنٹ مشن کو مائونٹ بیٹن کے3جون کے منصوبے سے بدل لیا گیا تھا، اس منصوبے کی تمام تجاویز سوائے تجویز نمبر17کے برطانوی ہندوستان کے بارے میں تھیں۔تجویز نمبر17میں بتایا گیا ہے کہ12مئی1946ء کی کیبنٹ مشن کی یادداشتیں جو کہا گیا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ یعنی ریاستیں اگر چاہیں تو بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے برعکس آزاد ملک کی حیثیت اختیار کرسکتی ہیں۔برطانوی تاریخ دان پروفیسر الیٹریمب کے مطابق1947ء میں برصغیر ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کے اصولوں کی رو سے ریاست جموں و کشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ برطانیہ کے اقتدار اعلیٰ ختم ہونے اور انگریزوں کے چلے جانے کے ساتھ (جیسا کہ ریاست جموں و کشمیر کا تاج برطانیہ کے ساتھ تعلق تھا۔) بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے کو انتخاب کرسکتا تھا۔ یہ حق انتخاب صرف ریاست کے حکمران کو تھا یا پھر کچھ بھی کارروائی نہ کرتے ہوئے15اگست1947ء کو وہ ایک آزادی حیثیت کے ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔مہا راجہ ہری سنگھ کے اس ذمہ داری کی تکمیل سے پہلوتہی کرنے کے باعث ریاست جموں و کشمیر ایک آزاد ملک بن گیا تھا لیکن بھارتی حکمران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کی یہ مدت آزادی26/27اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی کیونکہ مہا راجہ ہری سنگھ نے تاریخ26اکتوبر1947ء کو الحاق کے دستاویز پر دستخط کردیے تھے۔27اکتوبر1947ء کی صبح کو انڈین فوجیوں کی ریاست کے معاملات میں واقعتاً کھلی مداخلت سے قبل کہا جاتا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے ایک آزاد ملک ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی مداخلت کی منظوری کے لیے الحاق کی دستاویز پر مہا راجہ ہری سنگھ کے دستخطوں کو لازمی شرط قرار دیا تھا۔نام نہاد الحاق کی درج تاریخ26اکتوبر کو مبصرین نے عملاً ہر لحاظ سے سچ اور صحیح تسلیم کیا ہے، خواہ وہ بھارتی مقدمے سے ہمدردی رکھتے ہوں یا مخالف ہوں۔ سرکاری رابطے میں یہی تاریخ26اکتوبر ہی درج ہے۔ قرطاس ابیض جو بھارتی گورنمنٹ نے مارچ1948ء کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، 26اکتوبر1947ء ہی دہرائی گئی ہے۔ پنڈٹ جواہر لال نہرو وی پی منیق نے اپنی کتابIntergration of Indian statesمیں لکھا ہے کہ وہ حقیقتاً وہاں موجود تھا جب مہا راجہ ہری سنگھ نے26اکتوبر1947ء الحاق کے دستاویز پر دستخط کیے تھے لیکن بالکل جھوٹ ہے۔تازہ تحقیق نے بغیر کشی شک و شبہ کے دلائل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ نام نہاد الحاق کی درج تاریخ26اکتوبر1947ء غلط اور جعلی ہے، گزشتہ صدی کا سفید جھوٹ ہے۔ یہ حقیقت محافظ خانے (Archive) سے منکشف ہوئی ہے۔26اکتوبر1947ء کو مہا راجہ ہری سنگھ کا وزیراعظم مہر چند مہاجن اور وی پی سنگھ دہلی میں ہی ٹھہرے رہے۔ 26اکتوبر1947ء کو دہلی میں ان کی موجودگی کی شہادتیں موجود ہیں۔فریڈم ایڈ مڈ نائٹ کے مصنفین کے مطابق دہلی میں برطانوی ہائی کمشنر ایگزینڈر سائمن26اکتوبر1947ء کی شام کو دہلی کے ہوائی اڈے پر جموں کے لیے الوداع کرنے کے لیے گیا تو وی پی مینن وہاں موجود نہ تھا۔ ایگزینڈ سائمن مینن کو فون کرکے اس کے گھر چلا گیا۔ مینن نے اسے بتایا کہ جموں کے ہوائی اڈے پر روشنیاں نہیں ہیں، اس لیے کل صبح27اکتوبر1947ء کو جموں جائوں گا۔ مینن اور مہا راجہ کا وزیراعظم27اکتوبر کو صبح دس بجے دہلی سے جہاز کے ذریعے جموں کے لیے روانہ ہوئے۔فرضی الحاق کے فریب کی آڑ میں آزاد شدہ حیثیت کی ریاست جموں و کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازع بنایا گیا۔ پھر اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کا جھانسہ دے کر دونوں ملکوں میں اختلافات کی خلیج کو بڑھایا اور ان پہ اپنی بالادستی کو آج تک قائم رکھا۔دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے ساتھ ریاست کے عوام کے دکھ اور مصائب ختم نہیں ہوئے تھے، اس جنگ کی آگ کے انگارے ابھی ٹھنڈے بھی نہیں ہوئے تھے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک سوویت یونین اور بعدازاں چین کے خلاف فوجی اڈے قائم کرنے کی تدابیر سامنے لے آئے۔ مغربی ممالک سے دور اس مقصد کے لیے جغرافیائی لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر کو نہایت اہم مقام خیال کیا ہے۔پنڈت نہرو نے1950ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ ان اصولوں کی پروا نہیں کرتے جو کارروائیوں کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں یہ ممالک اپنے نقطہ نظر سے اپنے دفاع کے لیے کشمیر میں فوجی اڈے قائم کرنے کی سوچتے ہیں۔ شاید کسی خوف کے باعث وہ لاکھوں کشمیری عوام کے مستقبل کا اپنی مخصوص پالیسیوں کے لیے سودا چکانا چاہتے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک کیوں ریاست کشمیر پر ایک حقیقی رویہ اقوام متحدہ میں اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے زیر اثر بھارت کو مجبور کردیا جائے گا کہ وہ امریکہ کی بیرونی پالیسی کو آگے بڑھائے۔ یہ صورت حال بھارت کے عوام کے لیے نہایت سنگین دھمکی مرتب کرے گی، بھارت کے عوام کو مغربی ممالک کی اس سلسلے میں خارجہ پالیسی کے حقیقی مقصد کو سمجھیں اور اپنی گہری سوچ کو آگے بڑھائیں اور کشمیری عوام کی آزادی اور اپنی حکومت بنانے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔
تازہ ترین