• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسی(80ء)کی دہائی کے آخر میں بے نظیربھٹو کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد سے ہی عوامی رائے عامہ " مسٹرٹین پریسنٹ "کے نام سے ہموار کی گئی۔ اس کاتختہ الٹ کر " شریفوں " کو اقتدار سونپا گیا۔ جس میں " قرض اتارو ملک سنوارو" کے دل فریب نعرے کے بعد موٹر وے اور دوسرے مالی معاملات میں بدعنوانی کے الزامات کے بعد انہیںبھی رخصت کیا گیا۔ پھر یہ دوبارہ اقتدار پی پی پی کے ہاتھ لگا اور یہ کہانی دوبارہ دوہرائی گئی۔ الزامات ہمیشہ ایک جیسے رہے لیکن شکلیں بدلتی رہیں۔ عوام کو یقین ہوگیا کہ سارے سیاستدان کرپٹ ہیں۔ اب کوئی نیا نجات دہندہ آنا چاہیئے۔ پھر 2000 سے ایک سلسلہ چلتا چلاگیا۔ بہت تجربات کئے گئے۔ کبھی چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے، تو کبھی " امپورٹیڈ بزنس مینجر" کو آشیرباد دی گئی۔ لیکن پھر دوبارہ سیاسی دھارے کو اپنایا گیا۔ اور کچھ لے اور کچھ دے کے اصولوں کے تحت اقتدار پھرپیپلزپارٹی کی چھولی میں ڈال دیاگیا۔ گیلانی ، پھر پرویز یکے بعد دیگرے آزمائے گئے۔ سب ہی کرپشن الزامات سے بھرپور نکلے ۔پر مسندصدارت پر الزامات لگے اور لگتے ہی چلے گئے لیکن " صدارتی استثنیٰ" کا نعرہ لگاکر انہیں تحفظ پہنچایا گیا۔ لیکن " بدعنوان" کی گردان جاری رکھی گئی۔ پھر بڑی تگ ودو کے بعد ن لیگ اقتدار میں آتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ کرپشن کے الزامات، انتخابات میں دھاندلی اور بہت کچھ ساتھ لاتی ہے۔ جس کی بنیاد پر تاریخ کا طویل ترین دھرنا ہوتا ہے۔ جس میں سیاست کو ایک نیارنگ دیا جاتاہے اور اب الفاظ کے چناؤ ، شائستگی،باادبی کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اس " نئے ٹرینڈ" کو بہت پذیرائی ملی۔ اب سیاستدانوں نے بامعنیٰ گفتگو کرنے کے بجائے کھلم کھلا اورآزادانہ غیرپارلیمانی زبان کااستعمال شروع کردیا۔ اسی دھرنے میں پتاچلا کہ نوازشریف ملک کے کرپٹ ( بدعنوان ترین) اور زرداری دوسرے نمبر پہ بدعنوان سیاستدان ہیں اور دونوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں۔اب ان کا گٹھ جوڑ نہیں چلنے دیا جائے گا۔(اس وقت تک شہبازشریف بدعنوانوں کی فہرست میں شامل نہ تھے) پھر وزیرخزانہ اور وزیراعظم برخاست کردیئے گئے اور ان کی جگہ برخاست کئے گئے لوگوں کے " مرشدو ں" نے لے لی۔ لیکن بدعنوانی کے الزامات کے شور کو نہ دباسکے۔ اقتدار کے دن پورے کئے گئے اگلے انتخابات میں اقتدار کی چڑیا پی ٹی آئی کے سربیٹھی۔ پھر دنیا کے " جانے مانے" پاکیزہ لوگوں کو آپس میں ملاکر حکومت بنائی گئی ۔جس کا ایک پوائنٹ ایجنڈا ملک سے " لوٹی ہوئی دولت" واپس لانا تھا۔ ساری حکومتی مشینری " لوٹی ہوئی دولت" کو واپس لانے میں لگادی گئی۔ زرداری اور شریف پابند سلاسل ٹھہرے(ابھی تک شہبازشریف کوکلین چٹ تھی) پھر دھوم مچی کہ ان کے ساتھی بھی پکڑلیے گئے اور اب عنقریب لوٹی ہوئی دولت واپسی آیا ہی چاہتی ہے کہ اچانک دونوں بڑے بیمارپڑگئے اوروزیراعظم کو رحم آگیا ۔چونکہ علاج کرپشن سے افضل ہے اور یوں۔۔۔۔۔ پی ٹی آئی کے " اصل ترجمان" نے میڈیا پہ اعلان کیا کہ نوازشریف اتنا برا نہیں، زرداری واقعی بیمار ہیں، اصل " کرپشن کی جڑ " شہباز شریف ہیں۔ پھر 18 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ مارکیٹ میں آتا ہے اور پچھلے لگے سارے الزامات پچھلے ملزموں پر سے دھندلے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب عوام چکرااٹھی ہے کہ کہانی کیا ہے؟یہ کیا بدعنوانی کا میوزیکل چیئر کھیلا جارہا ہے۔ کروڑوںاربوں روپے خرچ ہورہے ہیں لیکن حاصل کچھ نہیں۔ کبھی کسی کو براکبھی کسی کو ذلیل کیاجارہا ہے۔ ہمیں چکرا کر رکھ دیا گیا۔ خدارا پہلے فیصلہ کرلیں، اینٹی کرپشن، اور سارے تحقیقاتی اداروں سے تصدیق کرلیاکریں پھر اعلانات کیا کریں۔ایسی سیاسی بدعنوانی میوزیکل چیئرسے کہیں انگلی کہیں اور نہ اٹھ جائے۔۔۔۔۔۔۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین