• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک کے بیشتر فوجی، سول اور دیگر لوگوں کو بڑھاپے میں چونکہ اور کوئی کام نہیں ہوتا ہے، انہیں اپنے زمانے کے کرتوت یاد آنے لگتے ہیں۔ یہ سب لوگ خود کو نیک، پاک باز اور راہِ مستقیم پہ چلنے والا گردانتے ہیں اور اپنے ماضی کی الف لیلیٰ لکھنی شروع کر دیتے ہیں۔ ان میں چاہے حسن ظہیر ہوں کہ روئیداد خان بیوروکریٹ ہیں اور فوجی تو چشتی صاحب سے لے کر مشرف اور تازہ ترین شاہد عزیز ہیں کہ جن کو ہر چوتھی لائن میں خدا یاد آتا ہے۔ (حالانکہ اپنے گناہوں کو لکھتے ہوئے عذر گناہ کیلئے ایسا کرنا ہی چاہئے) یہ لوگ تو چلو خود ہی نوٹس عمر بھر بنا کر کتابی شکل میں ڈھال لیتے ہیں۔ چونکہ لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس لئے سامنے جو آئے اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی الطاف گوہر سے لے کر قدرت اللہ شہاب نے ادب کے نام پر کون سا سچ لکھ دیا ہے کہ ہم بعدازاں آنے والوں پہ شک کا اظہار کریں۔ بے شمار لوگ اب تک قائداعظم کے بارے میں من گھڑت قصّے لکھ رہے ہیں کہ ہم لوگ بزرگ کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہم سے پہلے گزرنے والے تو گزر گئے اب ان کے بارے میں جو بھی لکھ دو کوئی انکار کرنے یا جھوٹ کو جھوٹ کہنے تو نہیں آئے گا۔ مزید جھوٹ کو مستحکم کرنے کےلئے یہ بھی لکھ دیا جائے کہ یہ سب کچھ خود میری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا تو پڑھنے والے اعتبار کیوں نہیں کریں گے۔سیاستدانوں کی کتابیں چوہدری خلیق الزماں یا پھر چوہدری محمد علی کی کتابیں تو خود ہی لکھی گئی ہیں کہ یہ پڑھے لکھے لوگ تھے، بعدازاں جتنے سیاستدان بھی آئے انہوں نے کسی نہ کسی لکھنے والے آدم زاد سے قلم گھسائی کرائی اور کتاب کو اپنے نام سے شائع کیا۔ مشرف کے بارے میں بھی جلد ہی سب کچھ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ ہر چوتھی لائن میں اس وقت اللہ کو یاد کرنے والے نے جب کارگل میں فوجی مارے جا رہے تھے، اس وقت اللہ سے رجوع کیوں نہیں کیا، بعدازاں مختلف نوکریاں مانگنے کی وجوہ بھی نہیں لکھیں۔ ویسے مجھے ایک بات پر تعجب اور حیرانی ہوئی کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ہماری فوج میں جو نوجوان شامل ہوئے ہیں، ان پر کیا بیتے گی۔ ہمارے سینئرز قسمیں اور وعدے کرنے کے باوجود ملک کی قسمت سے کس طرح کھیلتے رہے۔ ہمارے نوجوان سپاہی اور فوجی افسران ان تحریروں سے کیا سیکھیں گے اور اپنے لئے کون سا لائحہ عمل بنائیں گے۔یوں تو دنیا بھر میں ہوتا آیا ہے کہ لکھا کسی اور نے مگر بیان واحد متکلم میں کیا گیا کہ بیانیہ کا لطف قائم رہے۔ مثال کے طور پر لیلیٰ خالد نے زبانی بتایا کہ اس نے جہاز کیسے اغواءکیا تھا اور انتفادہ تحریک کیا تھی مگر لکھنے والی نے اپنی طرف سے کوئی لائن شامل نہیں کی۔ اسی طرح حکیم اجمل خان کی زندگی پر کتاب انتظار حسین نے لکھی تو اپنی طرف سے کچھ شامل نہیں کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈاکٹر اسلم فرخی نے جن اصحاب کے خاکے لکھے ان میں لکھنے والے کے الفاظ کی چاشنی، تحریر اور اسلوب کو اور بھی دلپذیر بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کا انداز بیان اور بھی پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاستدان دوسروں کی لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں، وہ بھلا خود لکھنا کب جانتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو ایک لاکھ روپے لے کر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا جاتا ہے، دس ہزار روپے لے کر عام تحقیقی مضمون کہ ہر پروفیسر کو اگلے گریڈ میں ترقی لینے کے لئے کم از کم تین مقالے لکھ کر چھپوانے ہوتے ہیں۔ یہ کام بھی پیسے دے کر اپنے آپ کو محقق بنانے کا دھندا بن کر خوب چل رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر انگریزی میں ان کتابوں کو لکھنے والیوں کو جانتی ہوں جو کہ دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کراتی پھرتی ہیں۔ یہ جانتی ہوں کہ کون سی کتاب کون سی ایجنسی نے کون سا موقع دیکھ کر لکھوائی تھی۔ یہ موقع کا لفظ میں نے بلاوجہ استعمال نہیں کیا ہے۔ اب آپ سوچیں کہ یہ کیا موقع ہے، تازہ ترین کتاب کے آنے کا، بالکل اس طرح کہ علامہ صاحب کے دھرنے کا خاص موقع اور مقصد کیا تھا کہ مذاکرات کا زمانہ آئے تو سیاستدانوں کا عمرے پہ چلے جانے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔کوئی چالیس، پچاس برس ہوئے شوکت صاحب نے میڈم نورجہاں کے بارے میں ایک کتاب ایسے مصنف سے لکھوائی تھی جو بے روز گار تھا پھر یہ کام چل نکلا۔ خواتین کے نام سے ناول لکھنے کا رواج بھی ہمارے دوست اے حمید نے ڈالا تھا، وہ بھی اپنی بے روز گاری کے ایّام کو یوں ہی کاٹ رہا تھا۔ پھر اسے ابن صفی کے مرنے کے بعد عمران سیریز ایسی ملی اور ڈائجسٹوں میں سلسلہ وار کہانیاں لکھنے کا ہنر ایسا چمکا کہ اے حمید کے پاس کوئی اور کام کرنے کے لئے وقت ہی نہیں بچتا تھا۔اب الیکشن نزدیک ہیں، ایسے ہی بیگار کے کام کرنے کا بہت کام نکلے گا۔ پہلے تو بے نظیر اور بیگم بھٹو تھیں جن کے خلاف لکھنے کا ایک زمانے تک کام اس شخص نے کیا جو بعدازاں بے نظیر ہی کا چہیتا بن گیا تھا۔ آج کل تو کرپشن اسیکنڈل کے بنڈل کے بنڈل پڑے ہیں جن کو اپنے حریف کے خلاف استعمال کرنے اور دوسرے کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے یہی غیر معروف بیگار کرنے والے لکھنے والے کام آ سکیں گے۔ پچھلے زمانے کیا اس زمانے میں بھی خاص کر بھارت میں اشعار لکھ کر گانے والیوں کو دینے والے بہت مل جاتے ہیں۔ آم کے آم، گٹھلیوں کے دام، وہ خواتین ان شعراءکے ساتھ جاتی ہیں۔ یوں بڑھاپے میں سہارا بھی مل جاتا ہے اور وقت بھی اچھا کٹ جاتا ہے۔ یہ صرف بھارت ہی میں نہیں ہوتا پاکستان میں بھی آم کی یہ قسم وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔
سوانح نگاری، آپ بیتی تو ان لوگوں کی توجہ طلب ہوتی ہے جو پہلے ہی ملک اور دنیا بھر میں مشہور ہوتے ہیں۔ یہ فصلی بٹیرے تو وارداتیے ہوتے ہیں، خاص طور پر ریٹائرڈ فوجی اور سرکاری افسر۔ اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کیلئے ایسے لگتے ہیں کہ ”دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں“ والا نقشہ کھینچتے ہیں۔ بہرحال سیاست کے ٹھہرے ہوئے پانی میں لرزش پیدا کرنے کے لئے یہ کتابیں تازہ ریٹائر ہونے والے فوجی اور سرکاری افسران کے لئے نسخہ ¿ کیمیا کا کام دیتی ہیں۔
تازہ ترین