’’کیا آپ دفتری امور کی انجام دہی میں اسٹریس (تناؤ)کا شکار رہتے ہیں؟‘‘اگر آپ کسی عام نجی ادارے میں کام کررہے ہیں یا پھرکسی ملٹی نیشنل کمپنی میں بھی ملازم ہیں، تو اس سوال کا جواب اکثریت کی طرف سے اثبات ہی میں آئے گا،کیوں کہ آج اکیسویں صدی میںجہاںجدید سے جدید ترٹیکنالوجی نے کام کی رفتارانتہائی تیز کردی ہے، وہیں انسان اس دوڑ میں خود کو آگے سے آگے لے جانے کی کوشش میں شدید ذہنی تنائو اور کام کے دباؤ سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی صحت کے مسائل میں ’’ورک اسٹریس‘‘ (Work stress) سرِفہرست ہے۔
بین الاقوامی تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس وقت دُنیا بَھر میں تقریباً 60فی صد سے زائد آبادی ورک اسٹریس کی اذیت جھیل رہی ہےاور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر سال ایک محتاط اندازے کے مطابق اوسطاً 26بلین ڈالر مالیت کی ادویہ خریدی جاتی ہیں،جب کہ اسی کام کے دباؤکے نتیجے میں اداروں کو بھی لگ بھگ 95بلین ڈالرمعاشی نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔واضح رہے کہ مالیاتی ادارےخاص طور پر بینکس اور سیکیوریٹی اداروںمیں کام کرنے والے ورک اسٹریس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
اگر تناؤ کی وجہ سے آپ اپنے دفتر یا کام کی جگہ پر درست کارکردگی نہیں دکھا پارہے یا کارکردگی متاثر ہورہی ہے یا پھر خود کو توانا محسوس نہیں کررہے، تو ملازمت سے برخاست کیے جاسکتے ہیں یا پھر آپ کاکاروبار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔اس صُورتِ حال سے دوچار افراد کے لیےیہ علامت اس بات کی متقاضی ہے کہ فوری طور پر تدارک کی کوئی کوشش کی جائے۔ عام طور پر ورک اسٹریس کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔
مثلاً ملازمت سے برطرفی کا خوف، کام کی زیاتی یا کارکنوں کی کمی کی وجہ سے دیر تک دفتر میں کام کرنے کی اُکتاہٹ، اپنے باس یا کلائنٹ کی توقعات پر پورا اُترنے کا دبائو، وقت پر کام کی تکمیل کہ دوسروں پر اچھا تاثر پڑسکے، اپنے کام میں مہارت نہ ہونا وغیرہ۔ اگر علامات کی بات کی جائے،تو ان میں ہر وقت پریشان رہنا، اُلجھن، چڑچڑا پَن، کام میں عدم دِل چسپی، تھکن، سُستی، نیندکا غلبہ، عدم توجہی، خرابیٔ معدہ، بے خوابی اور ملنے جلنےسے کترانا وغیرہ شامل ہیں۔
اگر خدانخواستہ کسی فرد میں ایسی علامات پائی جائیں، تو اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ دفتری یا پیشہ ورانہ کام یا پھرکسی اور وجہ سےذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے۔ ورک اسٹریس سے نجات کے لیے کئی تدابیر اختیار کرکےکارکردگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔مثلاً:
٭اپنے دن کا آغاز ورزش سے کیا جائے۔ یاد رکھیے، دِن کا پہلا گھنٹہ، اگلے تیئس گھنٹوں کی تشکیل کرتا ہے،لہٰذا صُبح سویرے سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی(بلکہ بہتر ہے کہ اذانِ فجر کے ساتھ) اُٹھیں اورنماز پڑھ کر کم از کم پندرہ سے بیس منٹ تک ورزش کریں۔ اس ضمن میں زیادہ اہتمام کی قطعاً ضرورت نہیں ، کیوں کہ دیکھا گیا ہے کہ جو افراد زیادہ اہتمام کے چکر میں رہتے ہیں، وہ ورزش کر ہی نہیں پاتے، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ گھر میں کسی ایک جگہ پر کچھ دیرہلکی پھلکی اچھل کود کرلیں،پھراُٹھک بیٹھک لگا لیں یا کچھ دیر کے لیے رسّی کودلیں۔اگرچہ یہ معمولی نوعیت کی بےحد آسان ورزشیں ہیں، مگر اس قدر مؤثر ہیں کہ چند ہی دِنوں میں خاصی بہتری محسوس ہوگی۔ سب سے بڑھ کر اس طرح آپ دفتر یا کام والی جگہ پروقت پہ پہنچ سکیں گے۔
٭ دفتر میں آپ کی جو بھی ضروریات ہیں، ان سے واضح طور پر آگاہ رہیں اور یہ تبھی ممکن ہے، جب آپ کو اپنی ذمّے داریوں کا ادراک ہوگا۔نیز، آپ یہ بھی جانتے ہوں کہ صُبح دفتر پہنچ کر کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ یاد رکھیے،یہ دونوں نکات بہت ہی اہم ہیں۔ اگر آپ اپنی ذمّے داریوں سے کم کام کریں گے، تو بھی مسائل جنم لیں گے اور زیادہ کرنے کی صُورت میں بھی آپ دباؤ کا شکار ہوں گے،لہٰذا اپنے کام میں توازن برقرار رکھنا ہی سب سے اچھی حکمتِ عملی ہے۔
٭تصادم اور جھگڑوں سے بچیں، کیوں کہ یہ جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتّب کرتے ہیں۔ عموماً دفتری سیاست بہت زیادہ تناؤ کا باعث بنتی ہے۔ اور اس کاپیش خیمہ عموماً چھوٹے چھوٹے مسائل اور معمولی اختلافات ہی ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے دشمنی کی شکل بھی اختیار کرلیتے ہیں یا کم از کم ان کے سبب متعلقہ افراد ذہنی تناؤ کا شکار ضرور ہوجاتے ہیں۔
٭جسم کو آرام دیں۔ بعض اوقات کام کرنے کی نشست یا وہ جگہ جہاں بیٹھ کر کام کیا جارہا ہے، اس قدر بے آرام رکھتی ہے کہ ذہنی دبائو پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیٹھنے کی ایک معمولی ظاہری نشست بھی ذہنی بیماری میں مبتلا کرسکتی ہے۔ ایک صاحب جو ایک ادارے میں کمپیوٹر آپریٹر تھے۔ ان کی گردن اور سَر میںاکثر درد رہتا تھا۔
انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی کرسی اوپر نیچے کرکے دیکھیں،تاکہ کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے ان کا سَر، گردن اور کمر سیدھے رہیں۔ انہوں نے اس تجویز پر عمل کیا، تو چند ہی روز میں سر درد اور بے سُکونی دُور ہوگئی، جو ان کی سخت تھکن اور اُلجھن کا سبب بنی رہی تھی، لہٰذا اپنی نشست اور جگہ پر مناسب روشنی اور آرام وغیرہ کا جائزہ ضرور لیں۔اگر مناسب سہولتیں میسّر نہیں،تو اُن کا انتظام کرلیں۔
٭ایک ساتھ کئی کام کرنے سے گریز کیا جائے۔ہمارے یہاں دفاتر میں یہ روش عام ہے کہ کام کی زیادتی کا حل ایک ساتھ کئی کام شروع کرنے کی صُورت نکال لیاجاتا ہے۔یاد رکھیے، ایک ساتھ کئی کام کرنے سے کارکردگی کبھی نہیں بڑھتی ، البتہ دبائوضرور بڑھ جاتا ہے،جس کے نتیجے میںکارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ کئی کام ایک ساتھ کرنے کی بجائے ان کے جلد حل کے متبادل مثبت طریقے تلاش کریں ۔اس حوالے سے اپنے کسی قریبی دوست یا کولیگ سے بھی مشورہ کیا جاسکتا ہے۔
٭اگر دفتر میںدوپہر میں نماز اور کھانے کا وقفہ ہو، تو اس سے ضروراستفادہ کریں،کیوں کہ صُبح نو سے ایک بجے تک کام کرتے کرتے توانائی چوتھائی حصّے سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ کچھ دیروقفہ کرنے سے دماغ اور جسم کو آرام ملتا ہے،تو توانائی بحال ہوتی ہے۔
بحالیٔ توانائی کا مطلب ہے، کارکردگی میں اضافہ۔لیکن جو افراد کام کی زیادتی کی وجہ سے وقت بچانے کی غرض سے لنچ بریک نہیں لیتے، وہ اپنی کارکردگی مزید گھٹاتے چلے جاتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ کام کرنے کی بجائے، زیادہ وقت میں کم کام ہی کرپاتے ہیں۔
٭دفتر یا کام والی جگہ تک پہنچنے کے دوران راستے میںکوئی موٹی ویشنل تقریر یا آڈیوبُک سُننے کی کوشش کریں۔ چاہے آپ کار میں سفر کررہے ہوں یا موٹر سائیکل پر، ہر دو صُورتوں میں یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے فون پر ایسی آڈیو فائلز محفوظ کرلیں، جو معلوماتی اور موٹی ویشنل ہوں۔ اس طرح ذہن کو توانائی فراہم ہوگی اور ٹریفک کے ہنگامے سے جو توانائی خارج ہوتی ہے، اس سے بھی خلاصی مل جائے گی۔ معروف پرسنل ڈیویلپمنٹ ٹرینر اور مصنّف، روبن شرما نے اپنی کتاب "The 5AM Club"میں اس عمل کو’’ ٹریفک یونی ورسٹی ‘‘کا نام دیا ہے۔
آپ سفر سے بچ سکتے ہیں اور نہ ٹریفک سے، تو پھر اسے یونی ورسٹی میں بدل لیں۔ سفر اور ٹریفک کے درمیان رہتے ہوئے سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھیے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی طریقے اور لائحۂ عمل ہیں، جن پر عمل کرکےکام کے دباؤ اور تناؤسے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔تاہم، اگر درج بالاباتوں ہی پرعمل کرلیا جائے، تو ورک اسٹریس میں واضح کمی محسوس ہوگی۔
(مضمون نگار، فلاحی تنظیم ’’ٹرانس فارمیشن انٹرنیشنل سوسائٹی‘‘ کے بانی ہیں اور گزشتہ پچیس برس سے پاکستان، کینیڈا سمیت دیگر مُمالک میں خاص طور پر ذہنی صحت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں)