• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے حالات میں جب پاکستان نے اپنی پن بجلی کی پیداوار کو 9ہزار میگاواٹ تک بڑھا دیا ہے، مزید کئی ہائیڈرو منصوبے بھی زیرتکمیل ہیں اور ان کے مکمل ہونے سے بجلی کی پیداوار 36ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہو جائے گی پاکستان کے پاس اتنی اضافی بجلی موجود ہو گی کہ اسے دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کیا جا سکے۔ گزشتہ دہائی میں جب ملک میں بجلی کا بحران تھا، عالمی بینک کے توسط سےCASA-1000منصوبہ تیار ہوا تھا۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کا جب آغاز ہوگا تو پاکستان مئی تا اکتوبر منصوبے میں شامل ممالک سے روزانہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی 9.50سینٹ فی یونٹ کے حساب سے خریدنے کا پابند ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان فالتو بجلی سردیوں میں تاجکستان، کرغزستان اور افغانستان کو برآمد کرے جس کیلئے ان ملکوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرف سے نیشنل ٹرانسمیشن ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے دبئی میں تاجکستان کے ساتھ فیصلہ کن مذاکرات کئے ہیں اس سے قبل پاکستان، تاجکستان کو باقاعدہ طور پر بجلی کی دو طرفہ سپلائی کا عمل شروع کرنے کی دعوت دے چکا ہے۔ یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے کیونکہ عالمی بینک کے توسط سے طے پانے والے کاسا 1000معاہدے کی موجودگی میں ایک اندازے کے مطابق ملک سرپلس ہو جانے والی ہزاروں میگاواٹ بجلی کے پیداواری اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ درآمد کی جانے والی بجلی کی قیمت اور اس کی ترسیل کا تخمینہ اس کے علاوہ ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں وسطی ایشیائی ریاستیں سرحدوں سے ملحقہ ملکوں کے بعد پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں جن کے ساتھ بات چیت آگے بڑھانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین