• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2019جاتے جاتے ایک اور وار کرگیا۔ امتِ مسلمہ متحد ہونے کے بجائے تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف ترکی، ملائیشیا، قطر، ایران اور کچھ مملکتیں۔

دوسری طرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، پاکستان، بحرین، مصر، شام، اردن۔ کوالالمپور میں ہونے والی سربراہ کانفرنس میں نہ تو سب سے زیادہ مسلم آبادی اور ملائیشیا کے پڑوسی انڈونیشیا نے شرکت کی اور نہ ہی مسلمانوں کے مقدس مقامات حرمین شریفین کے پاسبان سعودی عرب نے اور نہ ہی واحد اسلامی ایٹمی ملک پاکستان نے۔

ادھر 57ملکوں کے ایک ارب اسّی کروڑ مسلمان سہم کر رہ گئے۔ دوسری طرف شاہ فیصل، ذوالفقار علی بھٹو، حافظ الاسد، یاسر عرفات، بومحی الدین، انور سادات، عیدی امین کی روحیں تڑپ رہی ہوں گی۔ 1969میں قائم ہونے والی آرگنائزیشن کو اپنا پچاسواں سال بہت ہی شان و شوکت سے اجتماعی طور پر منانا چاہئے تھا۔

اور ہر اسلامی ملک میں بھی اس کا اہتمام ہوتا کہ ان 50برسوں کے دوران ہونے والے المیوں اور کارناموں کا جائزہ لیا جاتا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کلمہ طیبہ پر ایمان لانے والے مسلمان اپنی اس حیثیت سے نصاریٰ، یہود و ہنود کا ہدف ہیں۔ بھارت میں 2019میں شدت پسند ہندو حکمران مسلم دشمنی کا بد ترین مظاہرہ کررہے ہیں،

فلسطین میں کلمہ گو اسی طرح اسرائیلی مظالم کا سامنا کررہے ہیں۔ او آئی سی نے ان 50برسوں میں معیشت، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، بہبود آبادی اور دوسرے شعبوں میں مسلسل بہت خدمات انجام دی ہیں لیکن مسلمان ملکوں کی اکثریت معاشی بدحالیوں سے دوچار ہے۔

کچھ مسلمان مملکتیں بےحد امیر ہیں۔ اکثر غربت کی سب سے نچلی حدوں کو چھورہی ہیں۔ دنیا کی بڑی صنعتی تجارتی کمپنیوں میں مسلم ملکوں کی ملکیت کوئی نہیں۔ معیاری بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں کسی مسلم ملک کی درسگاہ شامل نہیں ہے۔

نئے آئیڈیاز، نئی ایجادات میں مسلمان پیش پیش نہیں ہیں۔ زیادہ تر مسلمان مملکتیں صارفین کی منڈیاں بن کر رہ گئی ہیں۔

مسلمان عوام اپنی مملکتوں میں فیصلہ سازی میں شریک کیے جاتے ہیں یا نہیں۔ اچھی حکمرانی، سستے اور فوری انصاف، اقتصادی ترقی، مقامی کرنسی کی ڈالر کے مقابلے میں مضبوطی کے لیے ہمیشہ دو ہی مسلم ممالک کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔ ترکی اور ملائیشیا،

دونوں کو اللہ تعالیٰ نے مہاتیر محمد اور طیب اردوان جیسے مقبول اور مدبر قائد عطا کیے ہیں۔ دونوں کے ہاں امن اور استحکام بھی ہے۔ میڈیا کی آزادی قابلِ رشک نہیں ہے لیکن مجموعی ترقی کی خوشگوار فضا میں یہ بڑا مسئلہ نہیں بن سکا۔

کوالالمپور سربراہی کانفرنس ان دونوں کا مرکزی خیال تھا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران اس پر تبادلۂ خیال ہوا۔ اس میں پاکستان کے وزیراعظم بھی شامل تھے۔ مشترکہ ٹیلی وژن کا خیال بھی عام کیا گیا۔ اس وقت عمران خان کو پاکستان کے پائوں میں پڑی زنجیروں کا احساس نہیں تھا۔ لوگ خوش ہوئے تھے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

لیکن کچھ ملکوں نے شاید اسے او آئی سی کے دائرہ کار سے متصادم قرار دیا ہے۔ اس کانفرنس کو او آئی سی کے متبادل تنظیم کی بنیاد رکھنے کی کارروائی کہا ہے۔ مہاتیر محمد اس وقت دنیا کے معمر ترین حکمران ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سے یقیناً کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ اس لیے انہیں 94سال کی عمر میں اپنے وطن کی انتظامی سربراہی کا دوبارہ موقع ملا ہے۔

اسی طرح ترکی کے صدر طیب اردوان بھی مسلمانوں کی خود مختاری کے لیے بہت متحرک رہتے ہیں۔ اپنے وطن میں انہوں نے معیشت کے استحکام کے لیے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ کانفرنس کے مقاصد اعلیٰ و ارفع ہیں۔ اس کے انعقاد کو اسلامی تعاون تنظیم کو کمزور کرنا، کہنا مناسب نہیں ہے۔

اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ او آئی سی کی کمزوری اسلام اور مسلمانوں کی کمزوری ہے۔ او آئی سی کے اربابِ حل و عقد کو روہنگیا کے مسلمانوں کی سسکیاں کیوں سنائی نہیں دیتیں۔ 57ممالک مل کر بھی برما پر زور کیوں نہیں ڈال سکتے۔

کشمیر میں 5اگست سے اپنے گھروں میں محصور مسلمان بھائی بہنوں کی چیخیں جدہ تک کیوں نہیں پہنچتیں۔ بھارت کے اب طول و عرض میں مسلمان جس جرأت اور بےخوفی سے شہریت بل کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں ان کلمہ گوئوں کے حق میں بعض عرب ممالک سے آواز کیوں نہیں اٹھتی۔

کوالالمپور کانفرنس اگر چہ نمائندہ اجتماع نہیں رہی ہے لیکن ایک کوشش تو کی گئی۔ اس کی مذمت اور نفی کرنے کے بجائے او آئی سی کو چاہئے کہ اس سے قدم آگے بڑھائے جائیں۔

اختلافات کو مزید ہوا دینے کی بجائے او آئی سی ایک نمائندہ اسلامی سربراہی کانفرنس جلد از جلد بلائے۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن، دہلی اور تل ابیب کو مسلم ملکوں کے اختلافات سے جو خوشی ہوئی ہے اس کا تاثر زائل کرنے کے لیے ایک نمائندہ اجتماع کا انعقاد ضروری ہے۔ عمران خان کو اس سلسلے میں جو خفت اٹھانا پڑی ہے۔

طیب اردوان کی بات درست ہے یا غلط۔ اس تاثر کو صرف اسی صورت میں دور کیا جاسکتا ہے کہ اب پاکستان اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے لیے از سر نو کوششوں کا آغاز کرے۔ بھارت میں کئی کروڑ مسلمان جس قیامت کا سامنا کررہے ہیں اس کے پیش نظر یہ پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے کہ 1974میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس کے معیار کی کانفرنس کا انعقاد کرے۔ ایسی بھرپور کانفرنس دوبارہ منعقد نہیں ہو سکی۔

میں نے اس کا بھی بطور صحافی مشاہدہ کیا تھا۔ پھر مراکش میں بھی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی قیادت میں کانفرنس میں شرکت کی۔ اور ملائیشیا میں بھی ایک شایانِ شان اسلامی سربراہ کانفرنس دیکھی۔

لاہور کی کانفرنس ایک فیصلہ کن موڑ تھی۔ اس لیے اس کے شرکا ایک ایک کرکے شہید کردیے گئے۔ شہیدوں کے وارثوں نے ان جرأتمند قائدین کی میراث کی حفاظت نہیں کی۔ اس لیے آج مسلم دنیا پھر بحرانوں میں مبتلا ہے۔ خونِ مسلم پھر ارزاں ہے۔

تازہ ترین