• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2019کا سال ہماری قومی زندگی پر گہرے نقش چھوڑ گیا ہے جو سالِ نو میں بھی اپنے اثرات دکھاتے اور عوام کو اُمیدی اور نااُمیدی کی کشمکش میں مبتلا رکھیں گے۔ بلاشبہ سالِ گزشتہ کئی حوالوں سے انتہائی اذیت ناک سال تھا۔ ہر لحظہ بڑھتی ہوئی گرانی، بیروزگاری، انتظامی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت کی نبض ڈوبنے لگی تھی۔ اِس کی بڑی وجہ وہ شدید محاذ آرائی اور زور آزمائی تھی جو حکومت اور اَپوزیشن کے درمیان چلی آ رہی تھی جس نے 2018ء کے عام انتخابات سے جنم لیا تھا۔ اُن کے بارے میں اپوزیشن کی سبھی جماعتوں کا الزام یہ تھا کہ پولنگ ختم ہو جانے کے بعد بیشتر پولنگ اسٹیشنوں سے اُن اُمیدواروں کے پولنگ ایجنٹس باہر نکال دیے گئے جن کو انتخابات میں ہرا دینے کا منصوبہ پہلے سے اسٹیبلشمنٹ نے تیار کر رکھا تھا، چنانچہ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کے نتائج مسترد کر دیے۔

جناب عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن جماعتوں کو ڈاکو، چور اور مافیا کے القابات سے نوازا اور بار بار اعلان کیا کہ وہ اِن سب کو جیل میں ڈالیں گے اور اُن سے قوم کا پیسہ نکلوا کر دم لیں گے۔ اِدھر وہ اعلان کرتے رہے اور اُدھر نیب اپوزیشن کے قائدین کو مقدمات میں پھنساتا اور تفتیش کے نام پر اُنہیں اپنی تحویل میں لیتا رہا۔ نیب کے چیئرمین کو نیب آرڈیننس میں گرفتاری کے اختیارات حاصل ہیں جن کے تحت اُنہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب شہبازشریف، سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق، محترمہ مریم نواز، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور سال کے آخر میں دانش مند سابق وزیرِ داخلہ جناب احسن اقبال کو بھی گرفتار کر لیا۔ نیب آرڈیننس میں ملزم کو ضمانت لینے کا بھی حق حاصل نہیں تھا جس کے باعث ملزمین نیب کے رحم و کرم پر ہیں۔ نیب حکام کسی سول اتھارٹی کے سامنے جواب دہ بھی نہیں۔ زیادہ تر اُنہی سیاسی شخصیات پر ہاتھ ڈالا گیا جو حکومت کی چیرہ دستیوں کے آگے ڈٹے ہوئے اور جرأت کے ساتھ اظہارِ خیال کرتے تھے۔ اِن میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے زعما شامل تھے۔ حکومت اِن گرفتاریوں پر خوشی کا اظہار کرتی اور یہ تاثر بھی دیتی کہ اِن ڈاکوؤں سے بڑی سختی سے نمٹا جائے گا۔

اِس فضا میں اپوزیشن کے خلاف اینٹی نارکوٹکس فورس بھی حرکت میں آئی اور اِس نے پنجاب کے سابق وزیرِ قانون اور نون لیگ پنجاب کے موجودہ صدر رانا ثناءاللہ کو منشیات فروشی کے الزام میں فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ وزیرِ مملکت جناب شہر یار آفریدی نے ’خدا کو جان دینی ہے‘ کے جہادی نعرے سے اِس گرفتاری کے ایسے ہوشربا واقعات ایک تواتر سے بیان کیے تو اندازہ ہوا کہ ہٹلر کا وزیرِ اطلاعات جوزف گوئیبلز کس طرح جھوٹ کو سچ ثابت کیا کرتا تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ رانا ثناءاللہ منشیات فروشی کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ چلے آ رہے ہیں۔ اُن کی ہفتوں سرولینس کی گئی اور ٹھوس ثبوت اور وڈیوز کے ساتھ اُنہیں تحویل میں لیا گیا۔ رانا صاحب چھ ماہ جیل میں رہے۔ اُن کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا، چنانچہ لاہور کی عدالتِ عالیہ نے اُن کی ضمانت لے لی۔ رانا صاحب نے رہائی کے بعد جو انکشافات کئے، اُنہوں نے بعض اداروں کی قلعی کھول دی ہے اور احتساب پر نہایت سنگین سوالات اُٹھا دیئے ہیں جنہوں نے اربابِ حکومت اور رِیاستی اداروں کے تعلقات میں دراڑیں ڈال دِی ہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق وفاقی کابینہ میں اے این ایف کے فوجی ڈائریکٹر جنرل اور بعض وفاقی وزراء کے درمیان بڑی تلخ کلامی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے جو بریفنگ دی، اُس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ مقدمات بنانے میں آپ لوگ قانون کا خیال نہیں رکھتے اور اِلزام جناب وزیرِاعظم پر آتا ہے۔ اِس مکالمے کا شائع ہو جانا ہی اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ معاملات کس قدر کشیدہ ہیں۔ حالات کے اِس پہلو پر بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ حکومت نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کے مسئلہ کو جس طرح ایک قانونی مذاق بنایا، اِس سے حکومت کی نالائقی ظاہر ہوتی ہے۔

اربابِ حکومت کے بارے میں یہ رائے پختہ ہوتی جا رہی ہے کہ وہ مختلف حربوں سے میڈیا کی آزادی سلب کرنا اور میڈیا ہاؤسز کو مستقل دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اب میڈیا کی دو قدآور اور جرأت مند شخصیتیں جو ہر قیمت پر اپنی آزادی قائم رکھنے اور حکومتی جبر کے آگے ڈٹے رہنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، اُن کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہم اخلاقی پستی کے بدترین عہد سے گزر رہے ہیں۔ 2019کے آخر میں روزنامہ ڈان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر جناب حمید ہارون کی کردار کشی کا ایک شرمناک حربہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہم نے اُن کے ساتھ برسوں کام کیا ہے اور وہ بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ وہ الزام لگانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے چلے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ صحافتی برادری کا بہت بڑا حصہ اُن کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ سالِ نو کی آمد سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ جناب عمران خان اپنے غیرسنجیدہ اور نااہل وزیروں اور مشیروں کے ہاتھوں یرغمال بنے اور انتقامی سیاست سے وطن کی عظمت کو داغدار کرتے رہیں گے، لیکن قدرت کے اپنے لافانی اصول ہیں کہ جو انتقام کی آگ کو ہوا دیتے ہیں، وہ خود بھی اِسی میں بھسم ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جن پر تکیہ ہے، وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ اِس اعتبار سے یہ صاف نظر آتا ہے کہ سیاسی تبدیلیاں ناگزیر ہیں اور عام انتخابات کا مرحلہ بھی بہت زیادہ دُور نہیں۔ ہم اپنے اہلِ وطن کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔

تازہ ترین