سال نو 2020ء کے آغاز کے ساتھ ہی سعودی حکومت کی جانب سے کچھ ترقیاتی منصوبوں کااعلان قابل ستائش ہے۔یکم جنوری سے سعودی وزارت محنت کی طرف سے چوبیس گھنٹے کاروباری سرگرمیوں کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے چند شرائط اور ضوابط بھی مقرر کیے ہیں۔
سعودی وزارت برائے بلدیات اور دیہی امور نے جنوری 2020 کے پہلے بُدھ تک ’’بلدی‘‘ پورٹل کے ذریعے 24 گھنٹے کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دینے کے لیے دکانوں کے مالکان سے درخواستیں وصول کرنے کا اعلان کیا۔سعودی میڈیاکے مطابق وزارت بلدیات کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کی نقل موصول ہوئی ہے، جس میں وزارت کی طرف سے تجارتی سرگرمیوں کے لیے لائسنس تکمیل کی جا چکی ہے۔
ملک بھر میں بڑےاور چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی تجارتی سرگرمیاں چوبیس گھنٹے چلانے کے اقدام سے معیشت ترقی کی طرف جائے گی اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ شہریوں کو ان کی ضروریات کی چیزیں ہمہ وقت دستیاب ہو سکیں گی اور ملک میں سامان کی طلب اور رسد میں بھی اضافہ ہوگا۔
وزارت بلدیات نے کہا ہے کہ 24 گھنٹے کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے سالانہ فیس مقرر کی جائے گی۔ فیس کا اطلاق علاقے اور کاروبار کی نوعیت پر ہوگی،البتہ تمام فارمیسیوں، طبی سرگرمیوں، تعلیمی سرگرمیوں اور گیس اسٹیشنوں (صرف ایندھن بھرنے کی خدمات) کو چھوڑ کر، شہری علاقوں سے باہر سروس سینٹر، شادی ہال ،ریسٹ ہاؤسز، ہوٹل ، ہوٹل اپارٹمنٹس اور تفریحی مقامات اس فیس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
واضح رہے کہ سعودی وزارت بلدیات نے گذشتہ سال اکتوبر 2019ء میں ملک بھر میں چوبیس گھنٹے دکانیں کھلی رکھنے کی تجویز پیش کی تھی جسے کابینہ نے منظور کر لیا تھا۔وزارت بلدیات کی طرف سے 24 گھنٹے کام کرنے کی اجازت کے حصول کے خواہش مند افراد کے لیے وزارت کی ویب سائٹ www.momra.gov.sa کے ذریعےرجسٹریشن اور دیگر شرائط کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔سعودی وزارت محنت نے خواتین ودیگر کارکنان کےنائٹ شفٹ میں کام کرنے والے کے حقوق کا خیال رکھنے کو کہا ہے۔وزارت محنت کی ہدایات کے مطابق حاملہ خواتین سے نائٹ شفٹ کی ڈیوٹی نہیں لی جا سکتی۔ وہ کارکن جو طبی مسائل کا شکار ہیں انہیں بھی اس قانون کی رو سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔
وزارت محنت کے مطابق رات کی ڈیوٹی کا آغاز رات 11 سے صبح کے 6 بجے تک ہو گا۔وزارت محنت و سماجی بہبود آبادی کے ترجمان خالد اباالخیل کا کہنا ہے کہ ’نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے کارکنوں کے حقوق قانون کے مطابق وضع کیے گئے ہیں ،جن پر عمل کرنا آجر کی ذمے داری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’قانون کے مطابق کارکنوں سے رات کی ڈیوٹی لینے والے آجروں کو چاہیے کہ وہ کارکنوں کی صحت کا مکمل طور پر خیال رکھیں اور انہیں درکار طبی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
ایسے کارکن جن کی صحت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ نائٹ شفٹ میں کام کریں انہیں چاہیے کہ وہ مصدقہ میڈیکل رپورٹ ادارے کو پیش کریں۔ادارے کی ذمے داری ہے کہ وہ مصدقہ میڈیکل رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے ان کارکنوں کو دوسری شفٹ میں ایڈجسٹ کرے تاکہ ان کی صحت متاثر نہ ہو۔
وزارت محنت کے قانون کے مطابق حاملہ خواتین سے نائٹ شفٹ میں کام نہیں لیا جاسکتا۔ ایسی خواتین جو بچوں کی مصروفیت کے باعث نائٹ شفٹ میں کام نہیں کر سکتیں انہیں بھی دن کی ڈیوٹی دی جائے تاکہ زچہ و بچہ کی صحت متاثر نہ ہو۔
وزارت محنت کے ترجمان نے مزید کہا کہ ’نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے کارکنوں کو اضافی مراعات دی جائیں تاکہ انہیں ڈیوٹی پر پہنچنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ رات کے کارکنوں کے لیے آجر کی جانب سے مناسب ٹرانسپورٹ کا انتظام ہو اگر ٹرانسپورٹ نہیں ہے تو نائٹ شفٹ کے کارکنوں کو اضافی ٹرانسپورٹ الاؤنس دیاجائے۔
رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کارکنوں سے تحریری رضا مندی حاصل کرکے اسے کارکن کی پرسنل فائل میں لگایا جائے تاکہ بعد میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایسے کارکنوں کا تبادلہ ایک ماہ میں کیا جائے تاہم مسلسل 3 ماہ سے زیادہ کسی کارکن کو نائٹ شفٹ میں متعین کرنا درست نہیں ہو گا۔ایسے کارکنوں کو جنہیں گھریلو مسائل کا سامنا ہو یا وہ اپنے گھر کے واحد کفیل و ذمہ دار ہوں، انہیں رات کی شفٹ سے خصوصی رعایت دی جائے تاکہ ان کے اہل خانہ متاثر نہ ہوں اور انہیں خانگی امور میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وزارت محنت کی جانب سے جاری قوانین اور مراعات کا اطلاق صرف ان کارکنوں پر ہو گا جو مسلسل ایک ماہ رات کی شفٹ میں کام کرتے ہیں یا ایک برس میں 45 دن رات کی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ماہ رمضان میں رات کی ڈیوٹی دینے والوں پر یہ قواعد لاگو نہیں ہوں گے دوسری جانب مملکت میں تجارتی پردہ پوشی کے خاتمے کےلئے جامع حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے۔ 5 حکومتی اداروں پر مشتمل تفتیشی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو سعودیوں کے نام پر کاروبار کرنے والے غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں گی۔
کمیٹی کا اصل ہدف سعودائزیشن نہیں بلکہ بقالوں اور ریٹیل کا کاروبار کرنےو الے غیر ملکی مالکان کا خاتمہ ہو گا جو سعودیوں کے ناموں سے کاروبار کر رہے ہیں ۔تشکیل دی جانے والی کمیٹی کو جو اہداف دیئے گئے ہیں ان کے مطابق مقامی مارکیٹ میں غیر قانونی طور پر چھوٹے کاروبار کرنے والے غیر ملکیوں کا خاتمہ اور ان کی جگہ سعودیوں کو یہ کاروبار خود کرنے کی ترغیب دینا او ر سہولت فراہم کرنا ہے ۔
کمیٹی جن حکومتی اداروں کے اشتراک سے تشکیل دی گئی ہے ان میں وزارت تجارت و سرمایہ کاری ، وزارت داخلہ ، وزارت محنت وسماجی بہبود آبادی ، وزارت بلدیات و دیہی ترقی ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی نگران قومی کونسل و قومی کمیٹی برائے زکوٰۃ کمیٹی کے علاوہ سعودی مانیٹرنگ ایجنسی اور سرمایہ کاری کونسل کے ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔
کمیٹی کا بنیادی مقصد سعودیوں کے نام پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کا سراغ لگاکر ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مقامی شہریو ں کو خود کاروبار کرنے کی ترغیب دینا ہے تاکہ مملکت میں تجارتی امور سعودی شہری از خود انجام دیں اور غیر ملکیوں نے جن کاروبار پر قبضہ جما رکھا ہے اس کاخاتمہ کرتے ہوئے ملکی معیشت کو تقویت دینا ہے ۔ غیر ملکیوں کے غیر قانونی طریقے سے کاروبار کرنے سے مملکت سے سرمایہ غیر قانونی طور پر منتقل ہو تا ہے جس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو تے ہیں جبکہ مقامی نوجوانوں کےلئے روزگار کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔
کمیٹی کی جانب سے سفارشارت کی روشنی میں سعودی نوجوانوں کو سرمایہ کاری بینک سے رقم قرض بھی دی جائے گی تاکہ وہ اس سے خود کاروبار کر سکیں ۔ کمیٹی کا قیام مملکت کے وژن 2030ء کے مطابق عمل میں لایا گیا ہے، جس سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنا اور مقامی نوجوانوں کو روزگا ر کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔
واضح رہے گزشتہ روز وزیر تجارت و سرمایہ کاری کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مملکت میں بڑی تعداد میں بقالے( کریانہ ) اور ریٹیل بزنس ہیں جن کے مالکان حقیقت میں غیر ملکی ہیں جبکہ انہوں نے سعودیوں کے ناموں پر یہ کاروبار کر رکھا ہے، انہیں ہر صورت میں ختم کریں گے اور اس رجحان سے سختی سے نمٹا جائے گا ۔
وزیر تجارت کا مزید کہنا تھا کہ سعودی شہریوں کو اپنے ناموں سے غیر ملکیوں کو کاروبار کرانے کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی ۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہر صورت میں تجارتی پردہ پوشی کے رجحان کا خاتمہ کیاجائے گا اس ضمن میں کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔
سال نو 2020ء کا دوسرا اقدام سعودی پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی ’’سیپٹکو‘‘ کا اعلان ہے، اسے جنرل ٹرانسپورٹ کمپنی کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی اس کے 80 فی صد سرمائے کی مالک ہے۔ اس نوٹس کا اعلان سعودی اسٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ ’’تداول‘‘ پر ایک بیان میں کیا گیا ہے ،جس میں رائل کمیشن برائے ریاض سٹی نے ریاض میں کنگ عبدالعزیز پبلک بس ٹرانسپورٹ سروس کو آپریشنل کرنے کے لیے سال 2020ء کی دوسری سہ ماہی کا اعلان کیا گیا ہے۔
کمپنی نے بتایا ہے کہ فی الحال اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ ٹرانسپورٹ کمپنی تمام متعلقہ فریقین کے مابین ضروری کاروباری منصوبوں کا مطالعہ کرنے کی سمت ہم آہنگی پیدا کر رہی ہے تاکہ اخراجات کا تعین اور بر وقت اعلان کیا جائے سکے۔ سعودی کابینہ کے فیصلے کے مطابق ایک اعلی کمیٹی ریاض ٹرین منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی اور رائل کمیشن برائے ریاض کے ذریعہ تیار کردہ عوامی نقل وحمل کے مجموعی منصوبے کے مطابق بس ٹرانسپورٹ کے لیے ایک متوازی نیٹ ورک قائم کرے گی۔
اس منصوبے کا مقصد آبادی کے تمام تمام طبقات کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنا، شہروں کے درمیان نقل وحمل کے ذرائع کو مؤثر اور مناسب انداز میں متنوع بنانا، نجی ٹرانسپورٹ کے استعمال کو کم کرنا، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور ٹریفک کے حالات کے مطابق نقل وحمل کی موجودہ اور متوقع ضروریات کو پورا کرنا ہے۔