اولیائے کرام کی سرزمین ،صوبہ سندھ روحانیت کے ساتھ طرح جڑی ہوئی ہے ۔اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور اس کی روشنی سے اس خطےکو منور کرنے کے لئے علمائے کرام جوق در جوق اس خطہ میں آنے لگے اورلوگوں کو روحانی فیض بانٹنے لگے۔اس خطہ میں بے شمار بزرگ ہستیوں نےمذہب اسلام کو پھیلانے اور اس کی آبیاری کے لیے لازوال خدمات انجام دیں۔
ایسے ہی ایک دینی و روحانی خانوادے کی بزرگ ہستی 1896 ء میں وادی کشمیر سے سندھ آئیں اور تلہار کے قریب انہوں نے آستانہ قائم کرکے دین کی ترویج و اشاعت کا کام شروع کیا۔ یہ شخصیت سید محمد شیر شاہ جیلانی ذاکری کی تھی، جو حضرت خواجہ نظام الدین کشمیری کے ہاتھ پر بیعت تھے ۔ وہ بلند آواز ذکر کرانے کی وجہ سے ذاکری کہلائے ۔ ان کے ایک فرزند سید محمد شاہ، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے لیے نواب شاہ تشریف لائے اور بالآخر سکرنڈ میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے مرید ین کو ان کی میزبانی اورپذیرائی کا شرف حاصل ہوا۔
1919-20ء میں سید محمد شاہ نے سکرنڈشہر کو رونق بخشی جس کے بعد وہ یہاں کے ہورہے اورانہوں نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی قبر اور روضہ بنوایا جس کی وجہ سے آپ ’’روضہ دھنی‘‘ کےلقب سے معروف ہوئے ۔ان کے یہاں 1935ء میں فرزند پیدا ہوئے جن کا نام سید احمد شاہ رکھا گیا۔ آپ کی آنکھیں اللہ نے اولاد کی نعمت سے ٹھنڈی کیں مگربہت مختصر عرصے کے لیے، ایک سال بعد ہی اللہ رب العزت نے سید محمد شاہ کو اپنے بلالیا اور سید احمد شاہ بچپن میں ہی باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔
بچپن اور یتیمی کے دور میں درگاہ پیرذاکری کا نظام فقراء نے سنبھال لیا تو سید احمد شاہ نے دل جمعی سے دینی تعلیم کی طرف توجہ دی ۔ قرآن مجید ابوالحسن سندھی ،مولانا عبداللہ کریمی کڈھری اور استاد سید محمد ابراھیم شاہ بخاری سے پڑھا۔ بارہ سال کے ہوئے تو فقیر و گھامل نے نقشبندی ، قادری سلسلہ فیض کی امانت جو سید محمد شاہ نے ان کے سپرد کی تھی،کچھ عرصہ بعد فقیرو گھامل بھی رحلت فرما گئے۔
سید احمد شاہ ننھے سائیں کے لقب سے سرفراز ہوئے اور یوں پیر ذاکری کی اس درگاہ پر کلمہ طیبہ کے ذکر، دلوں کے زنگ دھوتا، ذہنوں کی آلودگی کو صاف کرتا اور گناہوں کے ڈھونگ کو نیکیوں سے بدلتا رہا ۔وہ قرآن شریف کے روزانہ ایک پارے کی تلاوت فرماتے ، اس کے بعد اللہ کے 99 اسمائے مبارک کا ورد کرتے۔ اشراق کی نماز پڑھ کر گھر کی اوطاق میں تشریف لاتے ۔عشاء کی نماز کے بعد تین مرتبہ درودشریف ،استغفار ذکر اور گیار ہ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھتے اور رب کے حضور دعاگو ہوتے ۔
آپ ربیع اول1421ء بمطابق 5جون 2000ء کو انتقال فرما گئے ۔ان کی نماز جنازہ سید ابراھیم شاہ نے پڑھائی ۔ 9جولائی2000ء کو آپ کے فرزند سید منیر شاہ کی دستار بندی کی تقریب ہوئی ۔پگھ بندی سید ابراھیم شاہ نے کی اور یوں درگاہ پیر ذاکری کی جانشینی سید محمد منیر شاہ کو مرحمت کردی گئی۔ درگاہ پیرذاکری گنبدوں کی درگاہ کہلاتی ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ پورے ملک میں کسی بھی درگاہ کے اتنے گنبد نہیں جتنے اس درگاہ کے ہیں۔ سید منیر شاہ نے درگاہ کی تزئین و آرائش کا کام عقیدت مندوں کی مشاورت اور تعاون سے کرایا۔ قدیم و جدید تعمیراتی فن کے امتزاج نے اس گدی کے روحانی تاثر کو مزید اجاگر کیا۔
اس درگاہ میں عرس کی تقریبات ہر سال یکم نومبر کو منعقد ہوتی ہیں۔ عرس کے موقع پر اجتماع گاہ میں دوردرازے سے دو تین قبل ہی قافلوں کی آمد شروع ہوتی ہے۔عرس مں شرکت کرنے والوں میں بلوچستان سے عقیدت مندوں کی تعداد کافی ہوتی ہے۔اندرون بییرون شہر سے آنے والے زائرین کو درگاہ کی انتظامیہ کی طرف سے کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ عرس والے دن عشاء کی نماز کے بعد ذکر کی محفل شروع ہوتی ہے۔
استغفار ، کلمہ اور دورودشریف کا ذکرگھنٹوں چلتا ہے اور اس سے فضاء میں رقت طاری ہوجاتی ہے یہ انتہائی روح پرورسماں ہوتا ہے۔ پھر دعا کا مرحلہ آتا ہے تو سید منیر شاہ دعاکراتے ہیں ، جس کے بعد نعت خوانی ہوتی ہے۔ حسب معمول یقین کے بعد سجادہ نشین سید منیر شاہ اپنے خطاب میں عقیدت مندوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے ہیں پھر تقاریر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔
اس کے ختم کے بعد پھر ذکرکی محفل ہوتی ہے۔ جو فجر کی نماز تک جاری رہتی ہے۔ اختتام پر زائرین درگاہ میں اپنے مرشد کی قبر کی زیارت کرکے دعائیں کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے شہروں کی طرف واپس روانہ ہوجاتے ہیں۔