• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (عمر چیمہ) ہفتہ کو شب گئے ایک خبر مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کے لئے خوشی اور مسرت کا ذریعہ بن گئی۔ خبر تھی کہ یہ سابق حکمراں جماعت آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لئے ووٹ نہیں دے گی۔ 

سوشل میڈیا پر ترمیمی بل کی ’’غیر مشروط حمایت‘‘ پر پارٹی قیادت کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا ۔ جو لوگ شکوک و شبہارت کے بادلوں میں بھی پارٹی کے وفادار رہے ان کےخیال میں ’’ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر قیادت کا غیر لچکدار موقف ثابت ہوگیا لیکن وہ غلطی پر تھے۔ 

خبر درحقیقت جمعہ کو دیر گئے درست نکلی جب تک خبر پرجوش حامیوں تک پہنچتی پارٹی اس وقت تک یو ٹرن لے چکی تھی۔ بیک گرائونڈر کے لئے میاں نواز شریف نے جمعہ کی شام خواجہ آصف کو پیغام بھیجا کہ اگر دستوری عمل عجلت میں مکمل کیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ترمیمی بل کے حق میں ووٹ نہیں دے گی۔ 

خواجہ آصف سے کہا گیا کہ وہ یہ بات صاف اور صریح طور پر حکومت پر واضح کردیں۔ یہ جمعہ کی صبح خواجہ آف کو بھیجے گئے خط کا فالو اپ تھا تاکہ پہنچنے والے سیاسی نقصان کا ازالہ ہو۔ کیونکہ ترمیمی بل کی غیر مشروط حمایت کی اطلاع پر پارٹی کارکنوں میں بددلی پھیل گئی تھی۔ 

خط میں نواز شریف نے دونوں ایوانوں کے متعلقہ کمیٹیوںمیں بل پر تفصیلی غور و خوض کے لئے ٹائم فریم تجویز کیا تھا جس کے بعد بل پر بحث ہوتی اور پھر اس کی منظوری لی جاتی جو 15؍ جنوری سے قبل نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہم پارلیمنٹ کے وقار پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ 

اتنے اہم بل پر پارلیمنٹ ربر اسٹیمپ نظر نہیں آئی چاہئے۔ بعد میں بھیجے جانے والے اس پیغام کے ذریعہ وہ اس بات پر دوبارہ زور دے رہے تھے کہ ترمیم کے حق میں ووٹ غیر مشروط نہیں ہوگا۔ 

نواز شریف کے مطابق اگر دیاگیا طریقہ کار نہیں اپنایا گیا تو مسلم لیگ (ن) بل کے حق میں ووٹ نہیں دے گی۔ جب یہ پیغام حکومت تک پہنچا تو اس نے مذکوہ ہدایات کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے آئندہ بدھ کو بل کی منظوری کی ڈیڈ لائن دے دی اور بتایا کہ بل دونوں ایوانوں سے منظور کرالیا جائے گا۔ 

مطالبہ پورا نہ ہونے پر بل کے حق میں ووٹ نہ دینے کی بات پر قائم رہنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) نے حکومتی ٹائم فریم کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کو پیغام بھیجا گیا کہ وہ آئندہ ہفتے اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔ 

آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے لئے شیڈول میں بدھ تک کی توسیع کردی گئی ہے جس میں دونوں ایوانوں کی متعلقہ کمیٹیاں شامل ہیں۔ حکومتی شیڈول پر جانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی یہ بڑی اپوزیشن جماعت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔ 

پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا قبل ازیں موقف تھا کہ اگر ترمیمی بل پر ووٹنگ 15؍ جنوری سے قبل ہوئی تو وہ اس میں حصہ نہیں لے گی۔ پارٹی رہنماؤں کی اس حوالے سے اپنی وضاحت ہے۔ 

وہ یہ کہ ایک رکن کے مطابق بجائے 48؍ گھنٹوں کے ہم اس عمل کو ہفتہ بھر گھسٹینے میں کامیاب ہوگئے جب ان سے پوچھا گیا خط میں پیش کردہ شرائط پوری نہ ہونے پر پارٹی نے بل کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیاتھا تو ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی بات ہے اب میں تازہ ترین پوزیشن بتارہا ہوں۔ 

منہ چھپانے کی ایک اور حکمت عملی اختیار کی گئی کہ ناراض ارکان کو پارلیمنٹ کے اندر و باہر خوش کردیا جائے جہاں پارٹی ارکان کی اکثریت ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دے گی وہیں چند ارکان احتجاج کی علامت کے طور پر غیر حاضرہیں گے۔ 

شاید یہ کھوج لگانے والی آنکھوں کو دھوکہ دیں اور تاثر یہ بنا کہ پارٹی اس معاملے پر تقسیم ہوگئی ہے سخت گیر نواز شریف کی ہدایات پر چل رہے ہیں اور شہباز شریف کا ساتھ دینے والے حقیقت پسندوں نے ان سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے۔ 

قبل ازیں غیر مشروط حمایت کے معاملے پر کنفیوژن پیدا ہوگئی تھی کیونکہ خواجہ آصف کا اس بات پر زور تھا کہ پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے و یسا ہی کیا جیسا نواز شریف نے کہا۔ اس فیصلے کے بارے میں دعوے کے معاملے میںوہ غلط نہیں ہیں۔ 

یہ فیصلہ تو ایک ماہ قبل لندن میں پارلیمانی مشاورتی گروپ کےا رکان سے ملاقات میں کیا گیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب کے بارےمیں پارٹی پوزیشن مختلف نہیں ہے۔ ممکنہ امیدوار اور الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری بابر یعقوب فتح محمد کی حمایت کے لئے وہ طاقت ور حلقوں کی جانب سےدبائو میں ہیں۔ 

نواز شریف نے خواجہ آصف کو اس کی اجازت دیدی ہے جب انہوں نے پارلیمانی پارٹی کو اس سے آگاہ کیا تو انہیں ترمیمی بل کی طرح اس معاملے میں بھی بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 

دونوں معاملات میں فیصلے پارٹی کی اعلی قیادت ہی نے کئے۔ اندر ہی سے دباؤ پڑے پر نقصان کے ازالے کی کوششیں کی گئیں لیکن کوئی نمایاں تبدیلی نہیں کی گئی۔ دونوں مواقع پر اعلی قیادت کا محاسبہ نہ ہوا۔ 

دوسرے درجہ کی قیادت طوفان کی زد میں رہی۔ یہ بات سوچنے پر مجبور کررہی ہےکہ مسلم لیگ (ن) ڈبل گیم کھیل رہی ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا پارٹی کے حامی یا طاقت ور کھلاڑی ساتھ ہیں؟ اس کھیل میں شرکاء کی اکثریت ایک یا دوسرے کیس میں ملوث ہے۔ 

کہا جاتا ہے شہباز شریف عدالتی معاملات سے نمٹ رہے ہیں، جو جیلوںمیں ہیں، ان سے پیشی کے مواقع پر خاموشی اختیار کرنے کا کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان کی رہائی کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔ 

تازہ ترین