• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہم جواں تھے تب موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ یہ بات سننے کے بعد جنریشن گیپ کی ماری ہوئی نسل مجھ سے یہ نہ پوچھے کہ جب موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے تو ہم زندہ کیسے رہتے تھے؟ وقت کیسے گزارتے تھے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وقت گزارتے گزارتے ہم اس دنیا سے گزر جاتے تھے؟ وقت گزارنے کے لئے ہم کیا کرتے تھے؟ کیا کیرم بورڈ سے جڑے رہتے تھے؟ لوڈو کھیلتے تھے؟ سانپ اور سیڑھیوں کا کھیل کھیلتے تھے؟ یا پھر گلی کوچوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے تھے؟ ایسی بات نہیں ہے۔ گلی ڈنڈے کا کھیل تو اب بھی برصغیر میں کھیلا جاتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشترکہ ثقافت کی پہچان مانا جاتا ہے۔ دونوں ممالک میں مال مویشیوں کے ایک جیسے میلے ٹھیلے لگتے ہیں۔ پاکستان کے مٹھی، تھرپارکر سے لیکر پورے راجستھان میں ایک جیسے لوک گیت گائے جاتے ہیں۔ ایک جیسے ساز بجائے جاتے ہیں۔ ایسی باتیں دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان کے سیاستدانوں کو اچھی نہیں لگتی ہیں۔ لہٰذا ناپسندیدہ باتوں کا تذکرہ نہیں کرتے۔ جانے دو۔ مٹی پائو۔ ہم موبائل فون کے ایجاد ہونے سے پہلے والے غیر مہذب دور کی باتیں کرتے ہیں۔

قدرت کا تخلیقی تسلسل ازل سے برقرار ہے۔ ہر دور میں وقفے وقفے سے نئی نسل جنم لیتی ہے۔ نئی نسل لامحالہ پچھلی نسل کو اپنے سے کم تر سمجھتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ آئن اسٹائن کے بعد دس پندرہ نسلوں نے جنم لیا ہے، لیکن دوسرا آئن اسٹائن آج تک دنیا نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ ہر نسل بھول جاتی ہے کہ وہ تخلیقی تسلسل کا حصہ ہے۔ اس کی اپنی جداگانہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہی چار موسم ہیں جو ہر نسل ازل سے دیکھتی آئی ہے۔ ہر نسل کے تخلیقی عمل کو اٹل حقیقت موت سے واسطہ پڑتا ہے۔ تخلیقی عمل میں ہر نسل کو اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔

مانا کہ ہم جب جواں تھے تب موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح ہمارے آبائو اجداد جب جواں تھے تب ٹیلی فون ایجاد نہیں ہوا تھا مگر ہم جب جواں تھے تب ٹیلی فون ایجاد ہو چکا تھا لوگوں کے درمیان فاصلے سکڑ گئے تھے۔ ٹیلی فون کو پچھلی صدی کی بڑی ایجادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ٹیلی فون کے باعث آج آپ کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ ٹیلی فون کو ترقی یافتہ معاشروں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب پاکستان بنا تھا تب کراچی کوشہر ممبئی کے طرز کا ایک خوبصورت شہر مانا جاتا تھا۔ کراچی میں ہر وہ شے تھی جو ممبئی تب بمبئی اور لندن میں ہوتی تھی۔ ٹرام کے جدید نظام کی بنا پر کراچی سچ مچ بمبئی اور لندن جیسا لگتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی کی نئی انتظامیہ نے کراچی میں ٹیلی فون کو ہر خاص و عام کی دسترس تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان بننے کے تین چار سال بعد تک کراچی کا ہر لحاظ سے مرکز صدر ہوا کرتا تھا۔ صدر میں عالی شان اشیاء اور ملبوسات سے بھری ہوئی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعد صاف ستھرے ریستوران اور کافی ہائوس ہوا کرتے تھے۔ فیملیز کے ساتھ ریستوران اور کافی ہائوسز میں آنا کراچی شہر کی تہذیب میں شمار ہوتا تھا۔ صدرمیں سات آٹھ جدید سینما ہوا کرتے تھے جن میں صرف انگریزی فلمیں لگتی تھیں۔ میفیئر نام کا ایک اوپن ایئر سینما بھی ہوتا تھا۔ صدر کے بیچوں بیچ جہانگیر کوٹھاری پارک اور کرکٹ گرائونڈ ہوتا تھا۔ جہانگیر پارک میں کھیلنے اور پریکٹس کرنے والے کھلاڑیوں میں سے سات آٹھ کھلاڑی پاکستان کے لئے ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے تھے۔ صدر کی دو بیکریاں شہر بھر میں مشہور ہوتی تھیں۔ ایک بیکری کا نام تھا پیریرا بیکری اور دوسری بیکری کا نام تھا آدم سومار بیکری، آدم سومار بیکری جیسی نان خطائی آج تک کراچی کی کسی بیکری نے نہیں بنائی۔

پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کے ساتھ ہندوستان سے آئے ہوئے کئی ایک مسلم لیگی ممبران نے پہلی مرتبہ کراچی شہر دیکھا تھا اور شہر کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ تب مرکزی حکومت کے اجلاس سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوتے تھے اور سندھ اسمبلی کے اجلاس ہمارے این جے وی گورنمنٹ ہائی اسکول کے تھرڈ فلور یعنی تیسرے فلور پر ہوتے تھے۔ ہمارے اسکول کا تیسرا فلور ہر لحاظ سے سندھ اسمبلی کے استعمال میں رہتا تھا۔ بندر روڈ یعنی ایم اے جناح روڈ پر سعید منزل اور ماما پارسی گرلز اسکول کے قریب بننے والی این جے وی گورنمنٹ ہائی اسکول کی عالی شان عمارت انگریز کے دور کی کراچی میں بننے والی آخری عمارت تھی جوکہ انیس سو چھیالیس میں بن کر تیار ہوئی تھی۔ اٹھارہ سو چھپن میں کھلنے والے این جے وی ہائی اسکول کی اپنی دیدہ زیب عمارت میں ڈائو میڈیکل کالج کھولا گیا تھا۔ یورپ کے کئی شہروں، بمبئی اور کلکتہ کی طرح کراچی میں ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔ ایسے شہر میں اپنے دور کی زبردست ایجاد ٹیلی فون کا نہ ہونا امکان سے باہر تھا۔ پاکستان کی نئی حکومت نے صدر میں ٹیلی فون بوتھ لگوائے۔ ٹیلی فون بوتھ Cylinderنما ہوتے تھے۔ بوتھ کا آدھا دروازہ شیشے کا ہوتا تھا۔ دو آنے ڈالنے سے آپ کال کر سکتے تھے۔ تب ایک روپے میں سولہ آنے اور ایک روپے میں سو پیسے ہوا کرتے تھے۔ ترکیب نکالنے والوں نے ترکیب نکالی اور وہ بغیر دو آنے ڈالے اپنی ترکیب سے مفت کال کر سکتے تھے۔ اس کے بعد ایسے کاریگر پیدا ہوئے جو ٹیلی فون کے چیمبر سے جمع پیسے آسانی سے نکال سکتے تھے اور پھر ایسے ضرورت مند آن پہنچے جو ٹیلی فون کا ریسور کاٹ کر لے جاتے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسا دور آیا کہ لوگ ٹیلی فون بوتھ میں کوڑا کرکٹ ڈالنے لگے۔ دیکھا دیکھی خدا کے بندوں نے ٹیلی فون بوتھ کو حاجت کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ٹیلی فون بوتھ سے لاشیں برآمد ہونے لگیں۔ تب میرے شہر کراچی کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ کراچی کی اپنی جداگانہ تہذیب دم توڑنے لگی تھی۔

تازہ ترین