• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاستدانوں کے چراغ جلنے کو ہیں خاکم بدہن وطن عزیز کی روشنیاں بجھنے کو ہیں۔امریکی ایجنڈا بھی یہی ہے ۔ یہ چراغ جلتے ہیں تو عوام الناس کی روشنی ماندپڑ تی ہے البتہ جن کے چراغ دیسی گھی سے جل رہے ہیںوطن عزیز کی ماند ہوتی روشنی ان کافکر فاقہ نہیں۔بریکنگ نیوز:”جنرل مشرف نے پر اعتمادانداز میں پاکستان واپسی کا اعلان کر دیا ہے۔ پچھلے مہینے سعودی عرب میں محترم نواز شریف اور مشرف کے درمیان معاملات تو طے کروا دئیے گئے تھے فقط تفصیلات کا انتظارتھا ،اب نتیجہ بھی سامنے آچکا © ©“۔ 2007 ۔ NRO جو امریکی ڈکٹیشن اور کاوشوںکا مرہون منت ہے آج بھی ملکی سیاست اسکے پنجہ استبداد میں ہے ۔ بینظیر ،نواز واپسی کا فیصلہ بھی اغیار کے کاشانوں میں طے ہوااوراب مشرف کی واپسی کا فیصلہ بھی انہی دیارِغیر کی محلاتی سازشوں کا مرہون منت ٹھہرا۔پچھلے مہینے جب مخصوص اداروں نے یہ خبرجو قومی میڈیا میں نمایاں مقام نہ پا سکی اڑائی کہ قائد محترم سعودی عرب طلب کر لیے گئے ،مقصد اہم شخصیت سے معاملات طے کروانا تھا۔ وہم وگمان میںبھی نہ تھا کہ سرگوشیاںمشرف کی واپسی کا گرین سگنل تھیں۔2013 میںامریکہ بہادر 2008 کے انتخابات کی تکرار چاہتا ہے۔ چند نشستیںاِدھر کیااوراُدھرکیا۔چونکہ پیپلزپارٹی کی گرتی ہوئی ساکھ نے اسکی” قابل استعمال“ رہنے کی مدت کو متاثر کیااور وہ مزید کچھ ڈلیور کرنے کی پوزیشن میںبھی نہیں۔خوش کن بات یہ ہے کہ جب بھی سیاسی جماعتوں پر نزاع کا عالم آتا ہے ان کوملکی خدمت کی یاد ستاتی ہے چنانچہ زرداری صاحب آج کل ایران گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ پروجیکٹ کے فل ٹائم ڈائریکٹرجنرل بن چکے ہیں۔ بی ٹیم کو اجاگر کرنا اور باری کے لیے ہلا شیری دینا امریکی سکرپٹ کا اگلا حصہ بھی اور فوری ضرورت بھی ۔ تازہ مینڈیٹ زیادہ موثر طریقے سے ایجنڈے کی تکمیل کر سکتا ہے جو کام پیپلزپارٹی شاید نیم دلی سے سرانجام دیتی رہی ۔اگلی قیادت خوشدلی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے ،باقی قوم جائے بھاڑ میں۔کمان بدل گئی تو پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن، بمع ایک درجن متفرقات کے حسب حال ،حسب جثہ شامل حال بھی اور ہمارا مستقبل بھی؟بدلتے منظر نامے میں افواج پاکستان کا کیا کردارہوگا۔خاموش تماشائی؟ ۔کیا فوج ترنوالہ بننے کے لیے تیار ہے ؟ بالکل نہیں! کل فوج ملکی بقا کی جنگ میں مصروف رہی تو آج اس کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہے ۔سانحہ مشرقی پاکستان پھر ڈراﺅنے خواب کی طرح ہماری اعصاب شکنی میں مصروف ہے۔ آنے والے الیکشن کو بچانا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم افواج ِپاکستان کو ۔اداروں کے درمیان بد اعتمادی، عدم تعاون اور باہمی تناﺅ آج معاشرتی اور سیاسی گھٹن کا موجب بن چکاجبکہ عالمی شاطر اپنے بادشاہ ،وزیر،ہاتھی ، گھوڑے،پیادے سیاسی بساط پر پھیلا چکے ،چالوں کا تعین ہو چکا۔اگلے سال امریکہ کا افغانستان سے فوجی انخلاءہوناہے ۔ امریکی دفاعی بجٹ میں کٹوتی اس سمت میں ایک قدم ہی سمجھاجائے۔لیکن خطے کے مسائل 9/11 سے پہلے سے زیادہ گھمبیر ۔ ”طالبان، ایران، پاکستان کے اٹیمی اثاثے “امریکہ کے لیے ”مسئلہ فیثا غورث“ بن چکے ہیں۔پاکستان میں مرضی کے مقاصد حاصل ہوں گے تو ہی ایران اور افغانستان کا”مکو ٹھپا “جا سکے گا ۔الیکشن کی گھڑی آن پہنچی جن انتخابات نے ملک کو دولخت کیا تھا وہ انتخابات بھی ہماری اشد ضرورت تھے اور آنے والے انتخابات بھی ہماری ہی ضرورت ۔ امریکی بھی اپنی آس و امیدکی بہار آنے والے الیکشن کو سمجھ رہے ہیں ۔ فوری انتخابات بحیثیت قوم ہماری اشد ضرورت جبکہ تبدیلی سیاسی کمان امریکہ کی مجبوری ۔امریکی سفیر رچرڈاولسن کے ”بروقت اور شفاف انتخابات “کے مطالبے میں شدت کی سمجھ آتی ہے جبکہ وجوہات اپنی اپنی ۔ بڑے قائد صاحب کوخلعت اقتدار پہنانے کی تیاری زوروں پر ہے۔ بدقسمتی سے محترم قائدصاحب کی جنگجوانا صلاحتیں سے صرف نظر کرنا وطن عزیز کو تباہی کے عمیق گڑھوں میں دھکیلنا ہے ۔ قائد محترم اداروںکو تہس نہس کرنے کے لیے ہمہ وقت زرہ بکتر پہنے جنگ و جدل کے لیے تیار۔ واشنگٹن ،دہلی اور کابل میںعسکری اداروں کے خلاف شکایات کاایک دفتر کھلا ہے۔بقول شخصے کی ناقص کارکردگی ، نیم دلانہ کارروائیاں، دوغلی پالیسی وجہ نزاع رہی چنانچہ اب بات ”ڈومور“ سے بہت آگے نکل چکی ہے۔”امریکی امدادسے لے کر دشنام طرازی “سب کچھ نظریہ پاکستان اور عسکری اداروں کی بدنامی کے لیے وقف ہو چکا ہے۔نوازشریف کی جبلت ”مغلائی سوچ، اداروںسے لڑائی اور ”ریکارڈ مالی بے ضابطگیوں“ سے مالامال ہے ایسے سارے خواص غیرملکی آقاﺅں کالے پالک بننے کا فٹ کیس ہے ۔
قائدمحترم عدم تحفظ اور تناﺅ کے گاہک ہےں۔مضبوط اداروں سے خوف زدہ ۔ماضی میں صدر،فوج اور سپریم کورٹ سے ٹکراﺅ اسی کا شاخسانہ ہی تو تھا ۔کچھ فوجی سربراہوں کی مدد سے میاں صاحب اقتدار کے زینے چڑھے اور کچھ کی تعیناتی ان کے دور میں ہوئی لیکن نباہ کسی سے نہ ہوا ۔اسلم بیگ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے نواز شریف صاحب کو مسند ِاقتدار پر بیٹھایااس لڑائی نے سیاست کی جہتوں کو تبدیل کر دیا۔
جنرل مشرف کوخود میاں صاحب نے منتخب روزگار سمجھ کر چیف بنایا۔تجاہل عارفانہ کہیں یا خام خیالی یا دونوں ۔چشم تصور میںکہ اردو سپیکنگ ہیں ،خاندانی جڑیں زیر زمین ہیں نہیں، دبالیں گے ۔ ایک دفعہ جنرل آصف نواز سے سوال ہوا آپ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہو یاصدر اسحاق خان کے تو ترت جواب ملا6 لاکھ مسلح افواج کا کمانڈر صرف اپنے ساتھ ہوتا ہے۔ امریکیوں کی کہانی میں وقتی طور پر زرداری کا پارٹ ختم ہونے کو ہے۔بڑے قائد خلیجی دوست کے انتہائی فرماں برداردوسری طرف غیر مقلد خلیجی دوست اور امریکہ کے معاملے میںاندھے مقلد۔ہماری بدقسمتی امریکی مداخلت آنے والی قیادت کو فوج کے خلاف استعمال ہونے پر مجبور کر دے گی۔ 1988 اور 2008 کے انتخابات میںتو فوج امریکی عزائم کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور امریکہ اپنی مرضی کا سیاسی سیٹ اپ لانے میں کامیاب رہاجبکہ اس وقت امریکہ کے اپنے مفادات پرکوئی دباﺅ بھی نہیں تھا۔ اس دفعہ امریکہ کا بہت کچھ داﺅ پر ہے۔امریکہ پاکستان کے سیاسی رخ کا حتمی تعین چاہتا ہے چنانچہ قیادت کے چناﺅ میں دخل اندازی لازم ہے۔امریکی ایجنڈا واضح ہے اورمطالبات سامنے ہیں۔
1۔بھارت کو دشمن نہ سمجھا جائے ۔امن ،بھائی چارہ ”پاک بھارت تقسیم کی لکیروں کو مٹانا“کی ترویج واشاعت پہلی ترجیح ہو۔جہاد ،ایمان ،تقوی سے جان چھڑانی اسی کاہی تو حصہ ہے چنانچہ فوج کی تشکیل نو لازمی امرہے ۔
2۔فوج انڈیا کی بجائے دہشت گردوں کو دشمن نمبر 1 سمجھے اور تن من دھن کے ساتھ اس کی سرکوبی کرے۔
3۔چونکہ دہشت گرد کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں یکساں موجود۔انکی بیخ کنی کے لیے فوج کا ان علاقوں میںجانا بھی لازم ہے ۔
تین نکاتی ایجنڈا کیاحکم صادر کر رہا ہے عملاََ فوج کوسری لنکا اور بنگلہ دیش سٹائل پراملٹری فورس میں بدل دو۔
جہادی تصور نکال باہرکرو۔ ہندوستان سے شیروشیکراور اندرونی خلفشار ، بدامنی اور دہشت گردی پویس کی بجائے فوج کا دردِ سررہے۔ امریکی عزائم کا اصل ہدف کمزور فوج سے زیادہ اٹیمی اثاثے ہیں۔ امریکی اور انڈین گماشتے،لبرل فاشٹ ایسی چیزکا ہی تو دامے درمے سخنے مطالبہ کر رہے ہیں۔ بڑے قائد کی پچھلے سال سیفما میںسکھوں کے سامنے پاکستان کی نظریاتی ساکھ کو متاثر کرنے والی تقریر اور حال ہی میں گوادر اور ایران گیس پائپ لائن پر برہمی کا اظہار یہی تو اشکار کر رہا ہے۔ سیاستدان اپنی تقریروں میں اشارةََ کناة ََیہی درس ہی تو عام کر رہے ہیں ۔نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ سیاستدان تو ایک عرصے میں اس جستجو میں ہیں کہ حکمرانی کے لیے وہ جگہ بتاﺅ جہاں افواجِ پاکستان نہ ہو۔ ملک داخلی انتشار کا شکار اس پر مستزاد کمزور فوج اور کیا چاہیے۔ اقوام عالم کااٹیمی اثاثوں کے بارے لمحہ فکر یہ ایک فطری عمل ہی ہو گااور اس سے پہلے ہم کرکٹ ، ہاکی کو نیوٹرل جگہ پر منتقل کر وا چکے ہیں۔ کیا انتخابات کے بعد اب اٹیمی اثاثوں کو بھی نیوٹرل جگہ پر منتقل کرنے کی باری ہو گی۔سیاستدانوں اور جرنیلوں نے مملکت خداداد کو بہت زخم دئیے ہیں ۔ ڈھیٹ ملک ہے کہ قائم ہے ۔ آج تک تو خواہش کے باوجود ہم امریکی خواہشات کی تکمیل سے قاصر رہے بلکہ جوہر ی پروگرام پر توبہت ہی مایوس ہی کیا۔ ایوب خان ،بھٹو، ضیاالحق، بے نظیر، نواز شریف ، مشرف بہت کچھ گنوانے کے باوجود کوئی نہ کوئی ایسی واردات کر گئے ہیں جس نے نیو کلیئر پروگرام کو بچائے ہی رکھا ۔آج افواج ِ پاکستان کی اصل طاقت جوہری پروگرام ہی توہے۔
یہ رونا ساحل پر بیٹھ کر آنے والے طوفان کا نہیں۔وطن ِعزیز بیچ منجدھار میں پہنچ چکا۔ پرسوں کے کراچی کے واقعات آنے والی قیامت کا ہی تو اعلامیہ ہے ۔شرمناک !قانون نافذ کرنے والوں کو بھی اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔آج قتل و غارت نہ کرنے کا فیصلہ جرائم پیشہ عناصر نے کرنا ہے۔کیا قومی قیادت اور افواج پاکستان مل بیٹھ کر امریکی عزائم کو خاک میں ملانے کا کوئی عزم رکھتی ہے یا پاکستان کو لوٹنے بیچنے کے عمل میں کھو چکیں۔
تازہ ترین