• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا عبدالمجید سالک کی صدارت میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا، جس کا مصرعۂ طرح ’’قاروں نے راستے میں، لٹایا خزانہ کیا‘‘ تھا۔ دوران مشاعرہ احسان دانش کی جنم بھومی کاندھلے کے کئی شاعر یکے بعد دیگرے اسٹیج پر اپنا کلام سنانے کے لئے آئے، اتفاق سے اُن میں سے اکثر کے سر، بالوں سے فارغ تھے۔ مولانا عبدالمجید سالک کی باری آئی تو انہوں نے برجستہ شعر پڑھا۔

آتا ہے سے جو لاتا ہے سر پہ گنج

’’قاروں نے راستے میں، لٹایا خزانہ کیا‘‘

……٭……

حفیظ جالندھری، ایک مشاعرے میں سامعین کے سامنے آئے اور ’’شامۂ نامہ اسلام‘‘ کے اشعار لہک لہک کر پڑھنے لگے چند اور سینئر شعراء کے بعد جوش ملیح آبادی کی باری آئی۔ جوش صاحب نے مائک سنبھالا اور کہنے لگے’’سب سے پہلے ایک شعر، عزیزی حفیظ کی نذر‘‘ حفیظ صاحب نے گردن اُچکا کر فتح مندی کی نظروں سے دوسرے شاعروں کی طرف دیکھا، جوش صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ’’شعر حاضر ہے، حفیظ کی نذر‘‘

شاہنامۂ اسلام کے لکھنے والے!

اسلام کا شاہی سے تعلق کیا ہے

……٭……

ایک محفل میں کنور مہندر سنگھ بیدی اپنی مادری زبان ’’گورمکھی‘‘ کے ثقافتی پس منظر اور قدامت پر رطب اللسان تھے۔ جوش صاحب نے کہا ’’سردار جی! ساری باتیں درست، لیکن میرا خیال ہے کہ اگر دوزخ کی کوئی سرکاری زبان ہوئی تو وہ یہی آپ کی گورمکھی ہوگی‘‘ بیدی نے بے ساختہ کہا ’’جی ہاں جوش صاحب! اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ آپ کو اپنی سہولت کے لئے یہ زبان سیکھ لینی چاہئے‘‘۔

……٭……

متحدہ پاکستان کے دنوں کا ذکر ہے، ڈھاکہ میں ایک محفلِ مشاعرہ بپا تھی۔ مغربی پاکستان کے متعدد بڑے شعراء بھی شریکِ مشاعرہ تھے، جنہیں سننے کے لئے مشرقی پاکستان کے ادب پرور اور سخن فہم افراد، کثیر تعداد میں موجود تھے۔ عبدالعزیز خالد اپنی طویل نظم سنانے کے بعد اسٹیج سے جانے لگے تو اگلی صف میں بیٹھی ہوئی دھان پان سی ایک بنگالی خاتون کھڑی ہو کر کہنے لگی۔ ’’جنابِ صدر خالد صاحب سے کہیے کہ وہ اپنی اس نظم کا اُردو ترجمہ کردیں، تاکہ ہم لوگ سمجھ سکیں‘‘۔

تازہ ترین