کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ پروفیسر انعام باری بھی اب ہم میں نہیں رہے، ان کی پرنٹ میڈیا کے لیے خدما ت کو ان کے شاگرد کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود سمیت کئی صحافت کے استاد جامعہ کراچی سے وابستہ ہیں اور رہ چکے ہیں ،جو شفیق استاد محترم انعام باری کی خدمات، عاجزی اور شفقت کے معترف ہوں گے۔سعودی عرب اور بیرون ملک بھی ان کے شاگرد ان کی رحلت پہ افسردہ ہیں۔
اس حوالے سےخراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جدہ میں پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان جرنلسٹس فورم نے ایک تعزیتی پروگرام کا اہتمام کیا، جس میں سینئر صحافیوں نے شرکت کرکے مرحوم کی خدمات اور پروفیسر انعام باری کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ مرحوم انعام باری کے شاگردوں سینئیر صحافیوں خالد خورشید اور محمد عدیل نے مرحوم کی میڈیا کے لیے خدمات اوران کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مرحوم میڈیا کے حوالے سے اپنی تمام تر مصروفیات کے علاوہ اپنے شاگردوں سے تمام مضامین میں بھی چوبیس گھنٹے مشاورت کے لیےتیار رہتے تھے۔
انعام باری ریڈیو پاکستان کراچی کے بانیان میں سے تھے ، اس کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ کی جانب سے یونیورسٹی میں طلبا ء کی تربیت کے لیے ریڈیو اسٹیشن قائم کیا، ابلاغ عامہ، صحافت، ریڈیو پروڈیوسرز کی تربیت میں مرحوم انعام باری کا ایک بڑا حصہ رہا ہے۔ پی جے ایف کے چیئرمین امیر محمد خان نے کہا کہ ایک طویل عرصہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہنے کے علاوہ پروفیسر انعام باری نے پاکستان میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی کی سندھ کی شکایت کونسل کے مشیر خاص کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔وہ ریڈیو پاکستان میں بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔
یونی ریڈیو برلن کی بنیادرکھنے والی ریڈیو جرنلزم سے وابستہ ان کی خاتون طالبہ عشرت معین نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ انعام باری، جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ہمارے ریڈیو جرنلزم کے استاد تھے ۔ ہمارے گھر کے قریب ہی رہتے تھے اور اپنی بہنوں کے ہمراہ صبح جامعہ کراچی کے پوائنٹ سے ہمارے ساتھ صبح یونیورسٹی آتے تھے۔
انتہائی پرخلوص ، کم گو اور مہربان استاد تھے، جب میں جرمنی کی یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی تھی تو انہوں نے بہت اچھا خط جرمنی کی یونیورسٹی کے لیے میری اس قابلیت پر لکھا جو شاید مجھ میں صرف انہیں ہی نظر آئی تھی اور ساتھ ہی مجھے ریڈیو پاکستان میں ریڈیو صحافت کی ابتدائی تیاری بھی کروائی تاکہ جرمنی جاکر بات بنی رہے ۔ جب کہ یہ بات جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے سب ہی لوگ جانتے تھے کہ ہمارے یہاں اس وقت عملی صحافت کا یا تربیت کا فقدان تھا ۔
جب جرمنی میں میں نے اپنے ایک پروفیسر اندریاس ووسنتزاکے ساتھ یونی ریڈیو برلن کی بنیاد رکھی اور اپنے خستہ تجربے کو عملی صحافت میں استعمال کیا تو یہ سب باتیں جان کر انعام باری صاحب نے مجھے بہت سراہا ۔ میرے لیے وہ لمحہ کسی ستارے کو تسخیر کرنے سے کم نہیں تھا کہ جب ایک استاد نے مجھے اپنی ایک قابل فخر طالبہ کا خطاب دیا تھا ۔