5ہزار سال پرانی تہذیب کی وارث سندھ کی دھرتی اولیاء، صوفیاء اور بزرگان دین کا مسکن رہی ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر، شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت سچل سرمست جیسے جلیل القدر بزرگ اور صوفی شعراء نے امن، اخوت، محبت، بھائی چارے اور ہم آہنگی کا درس دیا۔ ایسی ہی ایک ہستی ہفت زباں صوفی شاعر فقیر قادر بخش بیدل بیکس کی ہے۔وہ اپنے دور میںسندھ کے ایک عظیم شاعر اور صوفی بزرگ گزرے ہیں۔
ان کی تحریریں آج بھی لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہفت زباں شاعر فقیر قادر بخش بیدل نے سکھر کے علاقے روہڑی میں آنکھ کھولی۔ ان کا دور 1814 عیسوی سے 1872عیسوی پر محیط ہے، 1230ہجری ، 1814 عیسوی میں فقیر محمد حسن کے گھر میں فقیر عبدالقادر عرف بیدل سائیں نے آنکھ کھولی، فقیر بیدل کا اسم مبارک عبدالقادر رکھا گیاآپ صوفی شاعر اور عالم تھے۔ آپ کا قیام روہڑی میں رہا۔ اپنے وقت کے ولی اور کامل بزرگ تھے۔
آپ جب بڑے ہوئے تو پیرانِ پیر دستگیر غوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادرجیلانیؒ کے ساتھ روحانی وابستگی کے سبب اپنے آپ کو قادر بخش بیدل کہلوانے لگے۔ پانچ برس کی عمر میں بیدل کے والد نے انہیں مکتب میں داخل کرادیا، مگر انہیں علوم ظاہریہ کے مقابلے میں باطنی علوم سے روحانی دل چسپی تھی، لیکن والد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئےبارہ برس تک وہاں تعلیم حاصل کی۔مولاناعبدالقادر بخش بیدلؒ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی محمدمحسن تھا اور وہ ریشم کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔
آپ کے والد محمد محسن بلوچستان کے مشہور بزرگ سیدمولاناعبدالوہابؒ ساکن بھاگ ناڑی کے مرید تھے۔ وہ میرجان اﷲشاہ ثانیؒ سے بھی بیعت تھے جو جھوک شریف کے صوفی بزرگ شاہ عنایت اللہ شاہ شہیدکے خلیفہ تھے۔ بیدل اپنے والد بزرگوار کے مرشد کے پاس حاضر ہوئے، جنھوں نے آپ کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔عبدالقادر بیدل، پیدائشی ولی تھے۔ فقیر بیدل کو اپنے والد نے سن 1243میں آپ کو صوفی جان اللہ شاہ کی خدمت میں لے جاکر ان کے ہاتھ میں بیعت کرائی اور میر جان اللہ شاہ ثانی نے آپ کو خرقہ عطا فرمایا۔
فقیر قادربخش بیدل نے دو شادیاں کیں، جن سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ بڑے فرزند کا نام محمد محسن اور چھوٹے کا محمد فرید تھا، فرید تو بیدل سائیں کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے جبکہ محمد محسن ایک بلند پایہ بزرگ، کامل ولی اور صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں۔عبدالقاد بیدل بیکس بھی قادر الکلام شاعرتھے۔ بیدل سائیں کا کلام آفاقی و الہامی تھا جو سات زبانوں عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور ہندی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ان کے مجموعہ کلام کی درج ذیل 23کتابیں موجود ہیں۔آپ کے والد محمد محسن کیونکہ کپڑا بنتے تھے اس وجہ سے ان کو پاٹولی کہا جاتا تھا۔ محمد محسن قادری طریقے کے پیرو تھے، فقیر بیدل اپنے لئے قادر بخش اور عبدالقادر دونوں نام استعمال کرتے تھے، انہوں نے عربی اور فارسی زبان میں مہارت حاصل کی۔
روحانی فیض حاصل کرنے کے لئےبیدل بیکس سیہون شہر میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مقبرے پر گئے، وہاں سے پیر جوگوٹھ ضلع خیرپور آئے، جہاں پیر صاحب پگارہ حضرت صبغت اللہ شاہ نے اپنے صاحبزادے پیر علی گوہر شاہ کے لئے ان کو اتالیق مقرر کیا، بیدل پیر صاحب کو مولانا رومی کی مثنوی کا درس دیتے تھے، اس کے پریالوئی ضلع خیرپور گئے جہاں پر مخدوم محمد اسماعیل کی درگاہ پر کچھ وقت قیام کیا، پھر واپس روہڑی آئے جہاں کپڑے اور دوسری چیزوں کی ایک دکان کھول کر بیٹھ گئے۔وہیں سن 1289ھ ، 1872ء میں وفات پائی، ان کا مزار روہڑی ریلوے اسٹیشن کے قریب مرجع خلائق ہے۔
بیدل ایک بلند پایہ عالم، صوفی شاعر اور مصنف تھے، ان کی تصانیف میں رموز العارفین (فارسی نظم)، تقویت القولوب، پنج گنج، ریاض القمر، سلوک الطالبین، رموز قادری، منہاج الحقیقت، وحدت نامہ اور سرور نامہ قابل ذکر ہیں۔آپ کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کا حال تذکروں میں نہیں ملتا، آپ نے خدادا دذہانت اور ذاتی محنت و صلاحیت سے قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ دین کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا، عربی، فارسی، سرائیکی اور اردو میں کامل دسترس حاصل کی۔روایت ہے کہ بارہ برس کی عمر میں حضرت بیدل نے تین رات متواترخواب دیکھا کہ لعل شہباز قلندر آپ سے مخاطب ہیں، ’’ہمارے پاس آجائو‘‘۔آپ نے روہڑی سے سیہون شریف کا سفر دیوانہ وار طے کیااور، حضرت لعل شہباز قلندر سیوستانی کے روضہ مبارک پر تشریف لے گئے۔
سندھ کے ایک جلیل القدر اسکالر عبدالمجید سندھی فرماتے ہیں کہ وہاں سے انہیں شعر و شاعری کی اجازت ملی اور آپ نے دو غزلیں فارسی اور اردو میں کہیں۔ ابھی چودہ برس کے تھے کہ حضرت بیدل کے پدر بزگوار کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔ آپ نے اپنے والدکے پیر صوفی شاہ عنایت اللہ ؒ کے خلیفہ میر جان اللہ شاہ اول کے پوتے میر جان اللہ شام دوم سے بیعت کی، شاہ اول و دوم دونوں صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں۔
حضرت بیدل کو اوائل عمر سے تلاش حق اور جستجو معرفت کا شوق تھا، ذوق جنون کے عالم میں آپ نے دور دور کی سیر و سیاحت کی، بزرگوں کے آستانوں اور اللہ والوں کے درباروں میں حاضری دی، آلام و مصائب کی گھاٹیوں سے گزر کر مظاہیر قدرت کے مشاہدات کیے اور دنیا کے رنگا رنگ تجربات کی روشنی میں روحانی کسب و کمالات سے آگاہی حاصل کی۔
حضرت بیدل ضلع خیرپور کے ایک قصبے میں تشریف لے گئے، یہ مقام ر وہڑی سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں کے ایک برگزیدہ درویش مخدوم محمد اسماعیل کے روضہ مبارک پر کسب فیض کیا اور کچھ عرصہ قیام کے بعد اپنے آبائی شہر روہڑی واپس آکر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ذریعہ معاش کی غرض سے کپڑے اور دیگر اشیاء کا کاروبار کیا۔ فکر معاش کے بعد ہمہ وقت فکر الٰہی ذکر محمدی اور خدمت خلق میں گزارتے، آپ کے مریدوں اور عقیدت مندوں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل تھے۔
1289ھ، 1872 ءمیں آپ کا وصال ہوا، آپ کا مزار پرانوار روہڑی اسٹیشن سے متصل ہے۔حضرت بیدل نے جب اس جہاں فانی میں قدم رکھا، سندھ میں تالپور وں کا دور اقتدار تھا اور جب دار فانی سے دارالبقاء کی راہ لی اس وقت انگریزوں کی سلطنت کا سورج نصف النہار پر جلوہ گر تھا۔ حضرت لعل شہباز قلندر سیوستانی، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست آپ کے بزرگان اسلاف میں سے تھے۔
اسے حسن اتفاق کہیے یا ان بندگان خدا کا روحانی اعجاز کہ جب شاہ عبداللطیف بھٹائی نے وفات پائی تواس وقت سچل سائیں کی عمر تیرہ برس تھی اور جب سچل سائیں نے رحلت فرمائی اس وقت فقیر بیدل نے حیات بے ثبات کی تیرھویں بہاردیکھی۔ یہ مذکورہ بالا ارباب علم و عرفان کا فیضان تھا کہ فقیر بیدل کو اپنے زمانے میں وہی مقام حاصل ہوا جو مقام حضرت شاہ لطیف، حضرت سچل سرمست جیسے اکابر ین سندھ کو اپنے اپنے زمانے میں حاصل تھا۔
حضرت فقیر قادر بخش بیدل بیکس ؒ کا عرس مبارک ہر سال روہڑی میں ان کی درگاہ پر منایاجاتا ہے ۔ عرس کی تین روزہ تقریبات میں سکھر، روہڑی،صالح پـٹ، پنو عاقل ، گھوٹکی، شکارپور، خیرپور سمیت دیگر علاقوںسے بڑی تعداد میں زائرین شرکت کے لیے آتے ہیں۔ سندھ میں صوفی شعراء اور روحانی بزرگوں کے میلوں میں قادر بخش بیدل ؒ کا عرس چوتھے نمبر پر ہے۔
عرس کے موقع پر صوفی فنکار مختلف علاقوں سے آتے ہیں اور فقیر قادر بخش بیدل کا کلام پیش کرتے ہیں ۔بیدل یادگار کمیٹی کے سیکریٹر ی اختر درگاہی کا فقیر قادر بخش بیدل کی ادبی خدمات کے حوالے سے کہنا ہے کہ قادر بخش بیدل ؒ7زبانوں کے شاعر اور 40کتابوں کے مصنف تھے۔عرس کی تقریبات کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اس دن پورے ضلع میں عام تعطیل کا اعلان کرتی ہے جو قادر بخش بیدلؒ کی خدمات کا اعتراف ہے ۔