• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹر نیٹ دورِ جدید کی ایسی انقلابی ایجاد ہے جس نے دنیا بھر کے انسانوں کے باہمی رابطوں کو فی الواقع برق رفتاری عطا کردی ہے تاہم ہر ایجاد کی طرح انٹرنیٹ کا بھی صحیح یا غلط مقاصد کے لیے استعمال انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس سہولت سے جہاں ایک شخص اپنے اقارب و احباب کے حال احوال سے ہمہ وقت باخبر رہ سکتا اور ایک طالب علم دنیا کے کسی بھی کتب خانے میں موجود کتابوں سے استفادہ کر سکتا ہے‘ وہیں ایسے بدطینت لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اس انقلابی ایجاد کو اپنے مذموم شیطانی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سائبر جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں جن میں خواتین کی قابلِ اعتراض تصاویر اور وڈیو بنا کر بلیک میل کرنا، آن لائن فراڈ، جعلی آئی ڈیز کی تشکیل، قابلِ اعتراض تقاریر اور تصاویر نیز چائلڈ پورنوگرافی وڈیو اپ لوڈ کرنا اور ہیکنگ وغیرہ شامل ہیں۔ پورے ملک میں قائم ایف آئی اے کے پندرہ سائبر کرائم مراکزکی گزشتہ ایک سال پر مبنی رپورٹ کے مطابق اس مدت میں 27214شکایات تصدیقی عمل سے گزر ی ہیں جبکہ 6762انکوائریاں جاری ہیں ۔ اس عرصے میں 575مقدمات درج ہوئے مگر صرف 43مقدمات میں سزائیں ہوئیں۔ اِن اعداد و شمار سے سائبر جرائم کی روک تھام کے مراکز کی کارکردگی کے بہتر بنائے جانے کی ضرورت پوری طرح واضح ہے۔ سہولتوں کے فقدان، 114مستقل اور 407کنٹریکٹ ملازمین میں سے صرف15 افرادکے تربیت یافتہ ہونے اور دو برس گزر جانے کے بعد بھی سائبر کرائم قانون کے اب تک مکمل طور پر نافذ نہ کیے جانے کے حوالے سے محکمے کے نائب سربراہ کا شکوہ حکومت کی فوری توجہ کا حق دار ہے۔ سائبر جرائم کا سدباب معاشرے کو خوفناک نتائج سے بچانے کے لیے ناگزیر ہے اور اس معاملے میں غفلت سماج دشمن عناصر کے حوصلے بڑھانے کے مترادف ہے۔

تازہ ترین