• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک کے شہریاروں کو کم از کم ہیری اور میگھن کے ان الفاظ سے ہی سبق سیکھنا چاہئے کہ ’’ہم عوام کے پیسے پر زندگی گزارنا نہیں چاہتے‘‘۔ حالانکہ برطانوی عوام اب تک ملک میں ملکہ برطانیہ اور ان کے خاندان کے چونچلے اٹھاتے ہوئے تھکتے نہیں اور اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں اب تک بادشاہت کو پریوں کے دیس کا مرقع سمجھا جاتا ہے۔

کہنے کو یوں تو ہالینڈ، جاپان، اسپین اور فرانس میں بھی بظاہر بلکہ معمولی سی بادشاہت ہے کہ جاپان کے بادشاہ نے خود ہی یہ طمطراق چھوڑ دیا۔

بادشاہت دیکھنی ہے تو خیر سے بعض مسلمان ملکوں کی جانب آئیے کیا نقشہ، کیا طنطنہ ہے، جس کو جب چاہیں معزول کردیں۔ جہاں چاہیں سمندر کے کنارے گرمیوں کی چھٹیاں لاکھوں کے ساز و سامان کے ساتھ گزاریں۔

ساری دنیا ان کی بادشاہت میں چھپے تیل کے راز جانتی ہے مگر امریکہ تک کو ہمت نہیں ہوتی کہ پوچھے ’’موت کا حکم کون دیتا ہے ، لوگوں کو قید کون کرواتا ہے؟‘‘۔

مگر ہیری اور میگھن کے فیصلے کو آخر ملکہ برطانیہ نے بھی مجبوراً قبول کیا۔ ان سے یہ نہیں پوچھا کہ جتنی شاہانہ رقم، برطانوی خزانے سے مل سکتی تھی۔ کیا اتنی رقم خود محنت کرکے کما سکو گے۔

خیر اگر پاکستان میں ہوتے تو سیاسی والدین تو ان کو رقمیں بنانے کا ہنر سکھاتے، خدا لگتی کہئے سیاسی رہنمائوں میں سے کسی کی اولاد مرسڈیز سے کم میں سفر کرتی ہے اور دنیا بھر میں اپنے بنائے ہوئے جزیروں اور محلات میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارتی ہے۔

دو روٹی مانگنے والی قوم یہ سب دیکھتی اور کڑھتی ہے۔ خدا سے پوچھتی ہے کہ یہ تقسیمِ زر کا کیا فارمولا ہے ’’ارے تم تو اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے‘‘۔

آپ آگے پوچھیں کہ آخر ہانگ کانگ کے لوگ کیوں جمہوریت چاہتے ہیں اور وہ بھی نوجوان لوگ۔ آخر کمتلانا کے لوگ اسپین میں آزادی کیوں مانگتے ہیں۔ آخر چار مہینے ہوگئے اسپین میں حکومت ہی اس طرح نہیں بن پا رہی جیسے ہمارے الیکشن کمیشن کے لئے پارٹیاں آپس میں راضی نہیں ہورہیں۔

آخر لسانی منصوبے میں کیا خرابی ہے کہ انڈیا کی ساری یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات سڑکوں پر ہیں۔ کیا محض اس لئے کہ اس لسانی منصوبے میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ نوجوان جانتے ہیں کہ 22؍کروڑ مسلمانوں کو یوں تہ تیغ نہیں کیا جاسکتا۔

دلت کو تو انسان نہ سمجھنے اور زندہ رہنے کے حقوق بمشکل دینے والی وہ بادشاہت جو ایک انتہا پسند شخص کو یوپی کے سارے حقوق دے دیتی ہے مگر بلاجواز پیش کئے جانے والے قانون پرعوام کی مسلسل مزاحمت کے باوجود، حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔

کشمیریوں کے لئے یورپی یونین کے احتجاج کے باوجود، ہمارے عرب ہمسائے، انڈین حکومت سے تجارتی تعلقات اور مضبوط کررہے ہیں۔

آپ سوچئے کہ بادشاہت کی گود میں پلنے والے ہیری کی آخر کیا مجبوری تھی کہ اس نے دور دراز کے ملکوں میں جاکر فوجیوں اور عام آدمیوں کے ساتھ کام کیا۔ اسے کیا مصیبت تھی کہ کسی بھی شہزادی نہیں بلکہ ایک اوسط درجے کی گندمی رنگت کی خاتون سے شادی کی۔

شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی، برٹش راج نے اس لڑکی کو طعنے دیے، بادشاہت کی جانب سے شاہی آداب سیکھتے ہوئے اس لڑکی کے غصے کو ناپسند کیا گیا۔ خود محنت کرنے اور کمانے کا خمیر تو ہیری کو اس کی اپنی ماں سے ملا ہے۔ جس نے شاہی نخروں اور نزاکتوں کو چھوڑ کر، بارودی سرنگیں دنیا بھر میں صاف کرنے کو زندگی کا مشن بنایا۔

اس پر ایک اورزخم کہ شوہر کی بے وفائی یہ ٹی وی پر آکر نہ صرف قوم کو اپنی مایوسی سے آگاہ کرے بلکہ ایک مسلمان کے ساتھ دوستی کو قابل عزت سمجھے۔ یہ و ہی شہزادی ہیں جس کے خیالات کو آگ دکھانے کے لئے، فرانس میں کس طرح اس کی گاڑی کو ایسے حادثے کا شکار کیا جو ڈیانا کی کہانی ختم ہو گئی مگر ان سارے واقعات نے ہیری کے ذہن میں زہر بھر دیا۔

زہر تو نہیں۔ غیرت، جوشاید ہم میں مفقود ہورہی ہے۔ کہ ہمارے دبئی میں محنت سے کام کرنے والوں کے بچے، شیخی میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم (اور گزشتہ تمام وزیر اعظموں) کی اولاد تو شہنشاہیت کے سائے میں پل کر جوان ہورہی ہے۔ ان کے لئے تو لندن میں باہر جاکر کھانا کھانا بھی ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں صبح کو کاغذ چننے والے بچے، شام کو ہوٹلوں کے ڈسٹ بن میں بقیہ برگر یا پیزا تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ منشیات کے عادی برے حال لوگوں کو بھی یونہی کھانا ڈھونڈتے دیکھا ہے۔

شاہی نوالہ چھوڑ کر، اپنی محنت کا فیصلہ، ایسے مضامین کاش ہمارے ٹی وی کے مذاکروں کا موضوع بنیں۔ کاش ہماری مسجدوں میں خطبے اپنی محنت کی عظمت سمجھنے پر بھی درس دیئے جائیں اور ہمارے نصاب میں ان مثالوں کو اجاگر کیا جائے۔

لیکن ایک بات! پھر ہمارے ملک میں چپہ چپہ پہ پھیلی درگاہوں پہ بریانی کی دیگیں، لوٹ لوٹ کر کھانے والے نہیں رہیں گے۔ کیا گود میں بچہ لئے مانگتی مائیں کام کرنے لگیں گی۔ کیا خواجہ سرا اور معذور لوگ، وہ فنی تربیت حاصل کرلیں گے جس کا وعدہ، وزیر اعظم نے کیا ہے۔

وزیر اعظم بے چارے پر ترس بھی آتا ہے۔ وہ خواب تو راتوں کو جاگنے والے اور شہر کے لوگوں کا حلیہ دیکھنے والے گزشتہ حاکموں کے دیکھتا ہے مگر آنکھ کھلتے ہی سترہ گاڑیوں کے جلو میں دفتر پہنچ جاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین