• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان... صدیوں سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز، حساس ترین خطہ

تاریخِ عالم پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنوب ایشیا ہمیشہ ہی سے غیر معمولی تاریخی، سیاسی ، جغرافیائی اہمیت کا حامل خطّہ رہا ہے ۔ اس کے اہم ممالک جن میں پاکستان ، ایران ، افغانستان اور بھارت شامل ہیں، صدیوں سے بیرونی طاقتوں ، حملہ آوروں اور فاتحین کی آماج گاہ بنے رہے ۔پاکستان میں بالخصوص بلوچستان ، اپنے مخصوص جغرافیائی محلِ وقوع کی بناپر انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ ایک طرف تو یہاں 700کلو میٹر طویل ساحل ہے، تو دوسر ی جانب درّۂ بولان اور درّۂ مولاجیسی قدیم پہاڑی گزر گاہیں ۔

لسبیلہ اور مکران کی صُورت قدیم ترین خشکی کے راستےبھی کسی نعمت سے کم نہیں ۔ ان گزرگاہوں کو استعمال کرنے والوں نے جہاں بلوچستان کی تاریخ او رثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے ، وہیں پوری دنیا کو اس کی جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کا احساس بھی دلایا ۔ سکندرِ اعظم سے لے کر عرب مسلمانوں تک یہ خطّہ ہر دَور ہی میں دنیا کی عظیم ترین تہذیبوں کے زیر ِاثر رہا ، اب تو مہر گڑھ سے برآمد ہونے والے آثار نے بلوچستان میں ایک ایسی قدیم تہذیب کی نشان د ہی کی ہے، جو چار ہزار سال قبلِ مسیح میں اپنے عروج پر تھی ۔اس کے مکین اتنے ترقّی یافتہ تھے کہ کپاس اُگاتے، اوزار بناتے، دندان سازی اور بیرونی دنیا سے تجارت بھی کرتے تھے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب جب مہر گڑھ اُجڑنے لگا ،تو اس کے مکینوں نے دریائے سندھ کی جانب ہجرت کی اور یوں عظیم الشّان انڈس تہذیب وجود میں آئی۔ ڈاکٹر محمّد اشرف شاہین اپنی کتاب ’’بلوچستان تاریخ و معاشرت‘‘ میں لکھتے ہیںکہ’’زمانۂ قدیم کی تاریخ ابھی تک واضح طور پر ہمارے سامنے نہیں آسکی ،مگر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گزشتہ ادوار میں بلوچستان تاریخی طور پر ایک ایسی شاہ راہ رہا ہے، جہاں سے گزرنے والوں نے یہاں منظّم حکومتیں بھی قائم کیں، متمدّن تہذیبوں کو جنم بھی دیا ، حملہ آوروں کی طرح لوٹ مار بھی کی ، مصلحین اور مبلّغین نے ادیان و مذاہب کا پر چار بھی کیا اور اس سر زمین پر اپنی اپنی تہذیبوں اور ثقافتوں کے ایسے نقوش بھی ثبت کیے جنہوں نے موجودہ بلوچستانی کلچر کی تشکیل کی۔‘‘

جغرافیائی اعتبار سے موجودہ بلوچستان کا شمار دنیا کے چند حسّاس ترین خطّوں میں ہوتاہےکہ اس کے ایک جانب وسطی ایشیا کی قربت ہے، تو دوسری طرف بحیرۂ عرب کے راستے گرم پانیوں تک رسائی کا خواب۔ ہمارے قریب ترین ہم سایوں،چین ، بھارت ، روس ،افغانستان اور ایران کے لیے بلوچستان کا طویل ساحل اور قدرتی وسائل اپنے اندر ایک خاص جاذبیت رکھتے ہیں ۔گرچہ بلوچستان کی اہمیت بہ اعتبار ِفوج کشی ہزار ہا سال قدیم ہے، مگر موجودہ اہمیت کا پس منظر ،انگریزوں کے عہد سے شروع ہوا ۔ انگریزوں نے اپنی فارورڈ پالیسی کا آغازاسی خطّے سے کیا ۔ 

ان کا واضح مقصد یہ تھا کہ وسطی ایشیا میں روس کے دبائو کے خلاف ایک دفاعی دیوار قائم کی جائے ۔ یہ دیوار در اصل ،روس کی اس پیش قدمی کا نتیجہ تھی، جو اس نے وسطی ایشیا میں متعدّد علاقوں کو اپنی گرفت میں لے کر افغانستان کی سرحدوں تک کی تھی ،یوں وہ برطانوی ہند کاقریب ترین ہمسایا بھی بن گیا ۔ درمیان میں صرف افغانستان کی ایک کم چوڑی پٹّی ہی بلوچستان تک اُس کی راہ میں حائل تھی ۔ افغانستان چوں کہ اس وقت تک انگریزوں کے مکمل کنٹرول میں نہ تھا۔ اُس لیے انہوں نے افغانستان کے بجائے بلوچستان ہی کو اپنا حلیف بنانا موزوں خیال کیا۔ 

افغانستان میں انہیں خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ ہوسکی ، اس دَور میں کہا جاتا تھا کہ ایک مضبوط حلیف بلوچستان، ہندوستان میں برطانوی مفادات کے لیے اتنا ہی اہم ہے، جتنا ایک مضبوط اور برطانوی حلیف افغانستان۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر ،انگریزوں نے بلوچستان کو اپنی تزویراتی گرفت میں لیا۔ گرچہ خود اس خطّے کی اہم گزر گاہیں ، معدنی وسائل او ر ساحلِ سمندر بھی انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے کم اہمیت کے حامل نہ تھے، مگر تقدیر نے کبھی کسی بیرونی قوّت کو بلوچستان کا بلا شرکت غیرے مالک بننے نہ دیا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہ خطّہ بیرونی قوتوں کے لیے اسٹیج تو بنا رہا ،مگر باالفاظِ محمّد سردار خان بلوچ ’’ وقت کے مدو جزر نے اس ڈرامے کے مرکزی کرداروں کو اپنی کارگزاری کی تکمیل سے پہلے ہی نکال باہر کیا۔‘‘

ہاں،یہ ضرور ثابت ہوا کہ ہر توسیع پسند نے اس محلِ و قوع کو آئیڈیل تصوّر کرتے ہوئے اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش ضرور کی ۔ ابھی چند سال پہلے تک دنیا کی دو سُپر پاورز کی رسّہ کشی میں یہی خطّہ ہدف بنا ہوا تھا۔ افغانستان میں روس کی مداخلت کے فوراً بعد ہی یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ اس کا اگلا ہدف بلوچستان ہوگا ،جو پھراس کے لیے خلیج فارس تک رسائی کا ذریعہ بن جائے گا۔ ایران اور افغانستان میں گزشتہ دو عشروں کی اسلامی تحریکوں نے سُپر پاورز کویہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ان ممالک کو مُطیع کرنا ان کے بس کا روگ نہیں رہا، لہٰذا ان کی توجّہ ایران اور افغانستان کے بجائے بلوچستان پر مرکوز ہوگئی ۔ 

گرچہ یہ بات یقیناً ان کے علم میں توہوگی ہی کہ یہاں کبھی کوئی بیرونی طاقت مستقل طورپر مسلّط نہیں ہوسکی ،مگر مخصوص قبائلی اورسماجی نظام کی بنیاد پر وہ اس خوش فہمی میں ضرورمبتلا تھے کہ بلوچ اور پشتون قومی تحریکوں کا ایک حصّہ روس کے لیے معاون ثابت ہوگا ،جیسا کہ 1981ء میں شایع ہونے والی ایک کتاب کے مصنف سلیگ ہیرسن نے لکھا ’’ پاکستان او ر ایران کے حکمران، سوویت یونین کی بالواسطہ فوجی جارحیت کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی خوف زَدہ ہیں کہ وہ (روس)بلوچ قوم پرست قوّتوںکو بذریعہ چھاپہ مار جنگ خود مختار آزاد بلوچستان کے قیام میں بھی مدد دے سکتا ہے۔ اس صور ت میں ماسکو،بلوچوں کو جدید ہتھیار ، فوجی مشیر ، تیکنیکی ماہرین او رمالی امداد تو فراہم کرے گا،لیکن بالواسطہ جارحیت کا خطرہ مول نہیں لے گا۔

اس کے علاوہ روس، بلوچ آزادی کی حمایت کے بجائے اسے ایران یا پاکستان یا دونوں کے لیےدھمکی کے حربے کے طورپر بھی استعمال کر سکتا ہے او ران سے بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں کے استعمال کی سہولت حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ بہرحال،روس کے یہ خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہوئے، مگر ممکنہ خطرات اور خواہشات کے پیشِ نظر دونوں طاقتوں نے اس خطّے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ ایک عرصے تک بلوچستان کے مختلف سیاسی حلقے اس بات کی نشان دَہی کرتے رہے کہ امریکانے بلوچستان میںا پنے اڈّے قائم کر رکھے ہیں، حالاں کہ اس حوالے سے ہر پاکستانی حکومت نے تردید ہی کی ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں سُپر طاقتوں کی دل چسپی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کی ایک بڑی مثال یو ایس ایڈ نامی پروگرام تھا، جس کے تحت امریکا ہر سال بلوچستان کے مقامی طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو امریکامیں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف مہیا کرتا رہا ۔

یہ وظائف بالخصوص بلوچستان کے ان علاقوں کے لیے ترجیحی طورپر وقف کیے گئے تھے، جہاں تر قّی پسند انہ سوچ کے حامل طلبہ کی اکثریت تھی۔ دوسری طرف اُس وقت کی دوسری سپر پاور، سوویت یونین کی اس خطّے میں دل چسپی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔روس نے ترقی پسند لٹریچر کی اشاعت ،طلبہ کو ماسکو اور دیگر سوویت یونیورسٹیزمیں تعلیم کے مواقع فراہم کیے۔ لیکن بلوچی عوام لالچی نہیں، اپنی مٹّی، اپنی سر زمین سے محبّت کرنے والے ہیں۔بس وہ ہمیشہ ہی سے مساوی حقوق کے طلب گار ہیں۔

ماضی کی دونوں سپرپاورز خوابوں کی بھول بھلیّوں میں گم رہیں ۔ رو س تو خیر شکست و ریخت کا شکار ہوکر واپس چلا گیا ،لیکن بلوچستان میں امریکا کی دل چسپی اب بھی کچھ کم نہیںہوئی ۔ بالخصوص چین سے سی پیک معاہدے کے بعد تووہ بلوچستان میںاپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیےہر حربہ استعمال کر رہا ہے ۔غالباً اس کے سامنے بلوچ قبائل کی قدیم تاریخ کی صحیح تصویر پیش نہیں کی گئی یا پھر وہ اپنی طاقت او ردولت کے زعم میں اس حد تک مبتلا ہے کہ اسے یہ تک نہیں معلوم کہ بلوچ عوام نہ تو کبھی طاقت کے سامنے جُھکے ہیں،نہ دولت کے سامنے ۔ 

طاقت کے سامنے نہ جھکنے کی ایک واضح تصویر خان قلات میر محراب خان شہید کی ہے، جنہوں نے 1839ء میں اپنے مُٹھی بھر جاں نثاروں کے ساتھ خو دسے ہزار گُنا زیادہ طاقت وَر انگریز فوج سے مقابلہ کیا اور ٹیپو سلطان کی طرح جام ِشہادت نوش کیا،مگر اپنی سر زمین کے دفاع کو جان سے زیادہ اہمیت دی۔اسی طرح نورا مینگل، شہباز خان گرگناڑی، اور دیگر سرفروشانِ وطن نے بھی بے سر و سامانی کے باوجود ،انگریزوں کے خلاف بھر پورجدّ و جہد کی۔سچ تو یہ ہے کہ بلوچ، ایک خود دار قوم ہے، جو حق کے لیے سر کٹوا توسکتی ہے،مگر جھکا نہیں سکتی۔

پاکستان اپنے قیام کے آغازہی سے امریکا کی معاشی امدا دکے زیرِ نگیں رہا ۔ اسی امداد نے امریکا کے لیے بلوچستان میں بھی منصوبوں کے دروازے کھولے۔ دوسری طرف ایران تھا ، جو شاہ کے دور تک امریکی مفادات کا ایک مضبوط قلعہ تصوّر کیا جاتا تھا۔ خود ایران کی کُل آبادی کا تقریباً دو فی صد بلوچ ہیں ،جوپاکستانی بلوچوں سے اپنا نسلی او رلسانی رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔اس طرح ان کا پاکستانی بلوچوں سے متاثر ہونا فطری امر ہے۔ 1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد مذہبی رہنماؤں کی قیادت امریکا او رروس دونوں کے لیے باعثِ اطمینان نہیں رہی۔ اسی طرح افغانستان میں روسی مداخلت کا باب بھی بند ہوچکا ہے۔ 

روسی فوجوں کے انخلاء، نجیب حکومت کی برطرفی او رمذہبی علماکی عبوری حکومت کی تشکیل بھی مغربی طاقتوں کے لیے باعثِ تشویش تھی ۔ بعد ازاں، طالبان امریکا کے لیے دردِ سر بن گئے ۔ اور پھر داعش کے قیام سے ایک اور باب کُھل گیا۔بلوچستان یقیناً اپنی جغرافیائی و سیاسی حیثیت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام بیرونی طاقتیں یہاں اپنااثر و رسوخ بڑھانے کی خواہش رکھتی ہیں۔لیکن دشمنوں کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ بلوچستان ،غیّور بلوچ اور پشتون عوام کی سرزمین اور مُلکِ پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، جس کی حفاظت کے لیے تمام پاکستانی ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں۔ آج کا بلوچستان ، پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

یہ ترقّی کی ایک ایسی دہلیز پر کھڑا ہے، جو اسے اکیس ویں صدی میں جدید ترین ترقّی یافتہ خِطّوں کی صف میں کھڑا کر سکتی ہے ۔ اب پاک، چین اقتصادی راہ داری ( سی پیک ) کا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے ۔ پاکستان کے ایک معاشی سروے کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان تجارت 16بلین ڈالرز سے بڑھی ہے۔سی پیک 3218کلومیٹر طویل رُوٹ ہے ،جو اگلے چند سالوں میں مکمل ہوجائے گا۔کہا جاتا ہے کہ پاک، چین اقتصادی راہ داری، گلگت بلتستان کے خُوب صُورت صوبے سے ہوکر چین کےصوبے، زِن جیانک تک جائے گی اور اس کا آغاز گوادر پورٹ، پاکستان سے ہوگا۔یہ ایک سفر کی ابتدااور امید کی ایک کرن ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت مضبوط اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوگا۔ 

اسے دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا حصہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر اور گوادر ڈیپ سی پورٹ کی تکمیل کا تھا، جو 2017ء تک مکمل ہونا تھا۔اس میں سے گوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر مکمل ہوچکی،جب کہ گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کاکام جا ری ہے۔پراجیکٹ میں کراکرم ہائی وے کی توسیع بھی شامل ہے۔سی پیک کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ، لیکن جس طرح کہا جارہا تھا کہ اس منصوبے میں گوادر سے کاشغر تک سی پیک رُوٹ کے تحت سڑکوں اور ریلوے کا مربوط نظام ہو گا، جس سے چین کی پاکستان تک رسائی آسان ہوجائے گی، اس حوالے سے عملی کام اُس رفتار سے نہیں ہورہا ،جس کے دعوے کیے گئے تھے۔

یہ بھی خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ سی پیک کے مغربی رُوٹ میں ،جو بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے لیے ترقّی اور خوش حالی کی نوید ہے، تبدیلی کی گئی ہے ۔مغربی روٹ پر تو اب تک کام کا آغاز ہی نہیں ہوا۔اب جب کہ بلوچستان کے عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کی یہ متفقّہ رائے ہے کہ سی پیک کے اصل رُوٹ کو مکمل کیا جائے ،تو اس منصوبے کے خد و خال واضح کرکے کام کی رفتار بڑھانے کی اشدضرورت ہے۔گزشتہ دِنوں نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ،سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے ایک بیان میں کہا’’ سی پیک کے حوالے سے ہمارے خدشات اور تحفّظات، آج درست ثابت ہورہے ہیں۔ 

دس سال سے سی پیک کے نام پر بلوچستان کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ تاہم، مقامی ٹرانسپورٹر ز کو اُمید تھی کہ پورٹ کی فعالیت کے بعد انہیں روزگار کے مواقع میسر آئیں گے، مگر حالیہ معاہدے کے بعد یہ امید بھی ختم ہوچکی ہے ۔اب بلوچ اور پشتون صرف سی پیک کے روٹ پر دوسروں کی گاڑیوں کے پنکچر لگا کر گزارا کریں گے ۔‘‘قبائلی عمائدین سے گفتگو کرتے ہوئے میر کبیر محمد شہی نے یہ بھی کہا کہ’’ہر دَور میں بلوچستان کو ترقی اور بڑے میگا پراجیکٹس دینے کے دعوےتو کیے گئے، مگرعملی طورپر کچھ نہیں نظر آرہا۔ 

عشرہ گزرچکا ہے ،تاحال بلوچستان میں سی پیک کا ایک بھی منصوبہ کہیں نظر نہیں آرہا، جب کہ صوبائی حکومت اس تمام صورتِ حال پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، جو افسوس ناک ہے۔ اس کے علاوہ اس کوریڈور کے تحت بجلی کے منصوبوں اور اقتصادی زونز کی تعمیر کو بھی یقینی بنایا جائے۔یہ نہ ہو کہ بلوچستان اور صوبۂ خیبر پختون خوا کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ ان کے ساتھ ایک بار پھر دھوکا ہوا ہے۔‘‘

بلا شبہ، ماضی میں یہ خطّہ شدید احساسِ محرومی او رمعاشی و سیاسی پس ماندگی کا شکار رہا ہے اور غیر مربوط منصوبہ بندی کی وجہ سےمتعدد مسائل اب بھی موجود ہیں۔ تاہم، صوبۂ بلوچستان ،پاکستان کااٹوٹ انگ ہے اور ہمیں یہ ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کے عوام مشکلات کے با وجود بہت محبّ ِوطن اور اپنے مُلک پر جاں نثار کرنے والے ہیں۔

تازہ ترین