• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے عزیز دوست جناب جاوید نواز جن کے ساتھ طویل نظریاتی سفر طے کیا ہے اور جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے کمال صلاحیتوں سے بہرہ ور کر رکھا ہے، وہ 1982میں مسقط چلے گئے۔ 

وہ جب پاکستان آتے تو سلطان قابوس کی بلند نگاہی، عوام دوستی، مذہبی رواداری، منصف مزاجی اور صلح جوئی کی بڑی تعریف کرتے اور یہ بھی کہتے کہ پاکستان کو عمان کے ساتھ تعلقات میں غیرمعمولی گرمجوشی پیدا کرنی چاہئے۔ 

حُسنِ اتفاق سے مجھے دو بار مسقط جانے اور وہاں کے حالات کو بچشمِ خود مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اُن دونوں مواقع کا تعلق محترمہ بینظیر بھٹو سے اتفاقاً قائم ہو گیا۔ پہلی بار مَیں 1986میں اُس روز مسقط کے لیے روانہ ہوا جس روز محترمہ جلاوطنی ختم کر کے لاہور آ رہی تھیں اور لاکھوں شہریوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا تھا۔ 

دوسری بار مَیں اور میری اہلیہ شاہدہ، جناب جاوید نواز کی دعوت پر مسقط گئے اور انہی کی قیام گاہ پر دو ہفتے ٹھہرے۔ تب اندازہ ہوا کہ میرے دوست کے سلطنتِ عمان میں تعلقات کا دائرہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ بیشتر وزرا سے اُن کے ذاتی مراسم تھے۔ 

دینی اور علمی حلقوں میں بھی اُن کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ اُن کے ذریعے میری اُن اہم پاکستانی بلوچ افراد سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو سالہا سال سے عمان میں آباد ہیں اور حکومت کے اہم شعبوں میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ 

تب ایک شام ہمیں میر مرتضیٰ بھٹو کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کی اندوہناک خبر ملی، تو مجھے محسوس ہوا کہ جلد ہی پاکستان میں بڑی سیاسی تبدیلی آنے والی ہے، چنانچہ میں دورہ مختصر کر کے پاکستان چلا آیا۔ ایک ہی ہفتے بعد صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی۔

جاوید نواز اُن دنوں پاکستان سوشل کلب عمان کے صدر تھے اور اِسی حیثیت میں اُنہوں نے میرے اعزاز میں ایک شام استقبالیے کا اہتمام کیا تھا جس میں ایک ہزار کے لگ بھگ مہمان شریک ہوئے۔ 

اُن کے ساتھ رات گئے تک تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ اُنہوں نے سلطان قابوس بن سعید کی حیرت انگیز قائدانہ صلاحیتوں کا تفصیل سے ذکر کیا جن کی بدولت اُنہوں نے پسماندہ عمان کو ایک جدید اور انتہائی ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کر دیا تھا۔ خوبصورت مسجدوں، کشادہ سڑکوں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں اور تجارتی مرکزوں کا ایک جال بچھا دیا تھا اور عوام کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کر دیا تھا۔ 

وہ 1970میں اپنے والد کو اقتدار سے محروم کر کے اٹھائیس سال کی عمر میں حکمران بنے۔ تب پورے ملک میں ابتدائی تعلیم کے تین اسکول، چند کلومیٹر پختہ سڑکیں اور فقط چند دکانیں تھیں جن کا کنٹرول گجراتی ہندوؤں کے پاس تھا۔ شمال کی جانب خانہ جنگی زوروں پر تھی اور یمن کے راستے کمیونسٹ عمان پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ 

اِس خانہ جنگی پر قابو پانے میں پاکستانی بلوچوں نے بڑی جواںمردی سے عمانی فوج کا ساتھ دیا۔ سلطان قابوس اِن قربانیوں کا ہمیشہ اچھے الفاظ میں ذکر کرتے اور پاکستان کے لیے گہری دوستی کے جذبات رکھتے تھے۔

مسقط میں قیام کے دوران مَیں نے شہر کو بہت صاف ستھرا پایا۔ دوستوں نے بتایا کہ سنگاپور کے بعد یہ دنیا کا صاف ترین شہر ہے۔ اُنہوں نے اِس پہلو پر بھی روشنی ڈالی کہ سلطان قابوس نے ملک میں ایک دستور نافذ کیا اور پارلیمنٹ بھی قائم کی۔ 

ایوانِ زیریں کے لیے عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے اور ایوانِ بالا میں قبائل کے شیوخ، تعلیم، صحت اور معیشت کے ماہرین نامزد کیے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سلطان قابوس عوام کے ساتھ براہِ راست رابطہ قائم رکھنے کے لیے ملک بھر میں تین ماہ دورے کرتے، ملاقاتیوں کے مسائل پر موقع ہی پر احکام جاری کرتے۔ 

اُن کا سب سے بڑا کارنامہ ایک بااخلاق، فرض شناس اور ہر آن مستعد پولیس فورس کا قیام تھا جو ایئرپورٹ پر آنے والے مسافروں کا خوش دلی سے استقبال کرتی، سڑک پر خوش خلقی سے پیش آتی اور جزا و سزا کے بارے میں ہر نوع کے دباؤ سے آزاد رہتی۔ 

اُن کی اِس روش کی بدولت پورے ملک میں امن قائم ہے اور بےخوف اور غیرجانب دار عدالتوں کے ذریعے انصاف کا بول بالا ہے۔

عمان میں 86فیصد مسلمان اور 5فیصد کے قریب ہندو اور سکھ آباد ہیں۔ وہاں مختلف مسالک سے وابستہ اباضی، شیعہ، سنی، بریلوی، اہلحدیث بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ یہ مذہبی اور مسلکی ہم آہنگی بلاشبہ سلطان قابوس کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے جس نے عمان کو ایک منفرد مقام دیا ہے۔ 

وہ فقہ اسلامی سے پوری طرح واقف تھے اور ہر سال پارلیمنٹ میں آ کر عربی میں ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر خطاب کرتے۔ اِس اجلاس میں وزرا اَور سرکاری حکام کے علاوہ تمام سفرا بھی مدعو کیے جاتے تھے۔

سلطان قابوس کا ایک اور ناقابلِ فراموش کارنامہ ایک چھوٹے ملک کو سفارتی اعتبار سے بہت بڑی عالمی طاقت بنا دینا تھا۔ وہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے اور تنازعات سے بالاتر رہنے کو اوّلین ترجیح دیتے۔ 

اُن کے روابط اِیران سے بھی تھے اور سعودی عرب سے بھی، مغربی ممالک سے بھی اور چین، روس اور شرقِ بعید سے بھی۔ عراق، ایران جنگ میں عرب حکمرانوں کے اصرار کے باوجود وہ غیرجانب دار رہے۔ یمن کی جنگ کے زخمی علاج کے لیے عمان آتے مگر سلطان اِس جنگ کا حصہ نہیں بنے۔ 

اِسی طرح جب امریکہ نے ایران کے خلاف اسٹاروار کا منصوبہ تیار کیا، تو سلطان نے اِس منصوبے میں یہ کہہ کر شامل ہونے سے انکار کر دیا کہ اِس کا ایران کے ساتھ کوئی تنازع نہیں۔ 

ایران کے ساتھ یورپی ممالک نے جو ایٹمی معاہدہ کیا، اُس میں سلطان قابوس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اُن کے اِسی عظمتِ کردار کی بدولت اُن کی رحلت پر تعزیت کرنے والوں میں شمال و جنوب اور مشرق و مغرب کے رہنما شامل تھے۔ 

جناب جاوید حفیظ جو تین سال تک عمان میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، نے سلطان قابوس کو ’رجل الرشید‘ کا لقب عطا کیا ہے۔ ذہن میں بار بار یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اہلِ پاکستان اِس رجل الرشید کا قابلِ تقلید اندازِ حکمرانی کیوں نہیں اپناتے کہ ہماری ریاست اور معاشرہ بھی مثالی بن جائے۔

تازہ ترین