• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹریفک وارڈنز کی بدسلوکی اور ویکسین کی عدم دستیابی

ایک زمانے میں عام پولیس ہی ٹریفک کو کنٹرول کرتی تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹریفک اتنی نہیں ہوتی تھی۔ انگریزوں کے دور میں لاہور اور کراچی میں گنتی کے افراد کے پاس کار ہوتی تھی، موٹر سائیکلیں فوج اور پولیس کے پاس ہوتی تھیں۔ فوج کے پاس بھی بہت لمبی لمبی ہرے رنگ کی موٹر سائیکلیں ہوتی تھیں وہ بھی چند کے، البتہ فوج اور پولیس کے ملازمین کی اکثریت سائیکلوں پر ہی آتی جاتی تھی۔ پولیس کی سائیکلوں کا رنگ خاکی نما ہوتا تھا اور باقاعدہ ان کے نمبر بھی ہوتے تھے۔ عوام کی اکثریت سائیکلوں، تانگوں، بسوں اور پیدل سفر کرتی تھی اور سائیکل پر بتی کا ہونا بھی ضروری ہوتا تھا۔ سائیکل کی ڈبل سواری اور بغیر بتی سائیکل کا رات کو چالان بھی کیا جاتا تھا۔ کیا سادہ اور خوبصورت زمانہ تھا۔

پھر جب ٹریفک بڑھی تو ٹریفک پولیس بنا دی گئی اور ٹریفک پولیس کی وردی سفید، سر پر ہیٹ جس پر لال پٹی ہوتی تھی، یہ ان کا یونیفارم طے کر دیا گیا۔ یہ ٹریفک پولیس ہاتھ کے اشاروں سے ٹریفک کنٹرول کرتی تھی۔ لاہور میں پہلا ٹریفک سگنل کمرشل بلڈنگ مال روڈ نزد وائی ایم سی اے کے قریب لگایا گیا۔ اس وقت ٹریفک سگنل کو دیکھنے لوگ اکثر شام کو جایا کرتے تھے اور اس چوک کا نام بتی والا چوک پڑ گیا جو 80ء کی دہائی تک سننے کو ملتا رہا۔ بس اور ویگن والے بھی بتی والا چوک کہہ کر آواز لگایا کرتے تھے۔ پھر اس کے بعد چیئرنگ کراس، ریگل چوک پر ٹریفک کے خودکار اشارے نصب ہوئے اور اس کے بعد لاہور اور کراچی کے تمام اہم چوکوں پر ٹریفک سگنل نصب ہو گئے۔ چوہدری پرویز الٰہی جب پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے ٹریفک پولیس کی بڑھتی ہوئی شکایات اور اس کی رشوت ستانی سے تنگ آکر ٹریفک وارڈنز کا نظام متعارف کرانے کا فیصلہ کیا اور کہا گیا کہ ٹریفک وارڈنز کی تنخواہیں زیادہ ہوں گی اور ان کی تعلیمی قابلیت کم از کم بی اے ہو گی، یہ پولیس عام ٹریفک پولیس کے مقابلے بہتر، خوش اخلاقی اور اچھے رویے کی مالک ہو گی۔ لاہور کے بعد پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی ٹریفک وارڈنز کا نظام متعارف کرا دیا گیا۔ یہ بات درست رہی کہ کچھ برس تو یہ ٹریفک وارڈنز عوام سے اچھا سلوک کرتے رہے، بڑی تمیز اور شائستگی کا مظاہرہ کرتے رہے، پھر یہ ٹریفک وارڈنز بھی آہستہ آہستہ روایتی پولیس بن گئے۔ اب لڑائی جھگڑے، مارپیٹ، گالم گلوچ عام بات بن گئی ہے۔ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ ٹریفک وارڈنز کا عوام کے ساتھ جھگڑا اور گالم گلوچ نہ ہوتی ہو، اگر پچھلے پانچ برس کا جائزہ لیں تو اتنے جھگڑے ماضی کی ٹریفک پولیس کے عوام کے ساتھ نہیں ہوئے جتنے ٹریفک وارڈنز کے گزشتہ پانچ برسوں میں ہوئے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ موٹر سائیکل سوار ٹریفک وارڈنز کو دور سے دیکھ کر اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے سربراہ کا کام ہے کہ وہ ٹریفک وارڈنز کی تربیت کریں، انہیں شہریوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے بارے میں ہدایات دیں نہ کہ وہ عوام کو تشدد کا نشانہ بنائیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس حوالے سے ان واقعات کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے۔ صورتحال یہ ہے کہ کئی سینئر صحافیوں کو روک کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور جان بوجھ کر شہریوں اور صحافیوں کے ساتھ اشتعال انگیز فقرے بولے جاتے ہیں۔

لیں جناب! سندھ میں سگ گزیدگی کے 2لاکھ واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں اور اب تک 25افراد کتے کے کاٹنے سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ کتے کے کاٹنے سے جان لیوا بیماری ریبیز (RABIES) ہو جاتی ہے اور انسان انتہائی اذیت اور تکلیف کے بعد مر جاتا ہے۔ پنجاب میں بھی کتا کاٹنے کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں، سندھ اور پنجاب کے بلدیاتی ادارے کتوں کو مارنے کی مہم تاحال بھرپور طریقے سے نہیں چلا سکے۔ سندھ میں تو حکومت زبانی جمع خرچ کرکے عدالت میں رپورٹ جمع کرا دیتی ہے، کراچی اور لاہور کی کون سی گلی یا بازار ہے جہاں کتوں کی بھرمار نہ ہو؟ سب سے افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ریبیز کی ویکسین نہیں مل رہی، یہ ویکسین بھارت سے منگوائی جاتی ہے۔ جب سے بھارت سے تعلقات خراب ہوئے ہیں، ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی اس کی دوائی نہیں مل رہی۔ ہمیں خود ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہو چکا ہے، پچھلے ہفتے ہمیں بھی کتے نے کاٹ لیا اور جب ہم ویکسی نیشن کرانے ایک پرائیویٹ اسپتال گئے تو انہوں نے کہا کہ ویکسین نہیں چنانچہ اس پرائیویٹ اسپتال کی چیف ایگزیکٹو کی سفارش پر جاکر ویکسین ملی۔

اس وقت حالات یہ ہیں کہ جن افراد کو کتا کاٹتا ہے، ان بیچاروں کو ویکسی نیشن کرانے کے لیے خوار ہونا پڑتا ہے۔ کتا کاٹنے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ٹیٹنس اور RABIESکا انجکشن ضروری ہوتا ہے اور اس کے بعد مزید چار انجکشن لگوانا ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں پیٹ میں چودہ انجکشن لگائے جاتے تھے، اب پانچ انجکشن ہو گئے ہیں۔ مستقبل میں صرف تین انجکشن لگوانا پڑیں گے۔ آج کل تین انجکشن والی ویکسین آ چکی ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی نہیں آئی۔ ویسے بھی حکومت کی ترجیحات میں عوام تو کبھی رہے نہیں، حالانکہ پورے ملک میں سگ گزیدگی کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں جبکہ اعلیٰ حکام اس سے بے خبر ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں کتا مار مہم شروع کی جائے، سندھ حکومت کا یہ کہنا کہ کتوں کو ویکسی نیشن کرائی جائے گی، بڑی عجیب بات ہے۔ کتوں کو چار ٹیکے لگانا ہوتے ہیں، اب کیا سندھ حکومت آوارہ کتوں کو پہلے کہیں بند کرکے رکھے گی پھر چار ماہ کے وقفے کے ساتھ ویکسین لگائے گی؟ یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے۔ کیا ہزاروں کتوں کو حکومت پالے گی اور ان کو ویکسی نیشن کرے گی؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین