• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کی شان میں اگر گستاخی نہ ہو اور حدِ ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عرض کروں کہ ڈاکٹر عاصم نے 2013ء میں آپ کو جو ٹیکہ لگایا تھا، اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔

آپ کو تو ٹیکہ لگنے سے ابھی تک حوریں ہی نظر آرہی ہیں اور اِدھر غریب عوام کی حالت یہ ہے کہ خوابوں میں بھی قبریں نظر آتی ہیں۔ آپ کی کسی بات سے اختلاف تو کیا نہیں جا سکتا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس قوم کے ساتھ بڑی زیادتی کی کہ آپ کو ایسا ٹیکہ لگا دیا کہ انسان اپنا کہا بھی بھول جائے اور پھر دھمکیاں بھی دے کہ ایک اور ٹیکہ لگائو۔

کاش ڈاکٹر صاحب کوئی ایسا ٹیکہ لگاتے کہ ہمارے بڑے خان کی یادداشت پر ایسے اثرات مرتب نہ ہوتے کہ وہ غریبوں سے کیے اپنے سارے وعدے ہی بھول گئے اور آج ہمارے خان صاحب بار بار ایک ہی بات دہرائے جاتے ہیں کہ مشکل کی گھڑی میں گھبرانا نہیں۔ خان صاحب خدارا!

اب اتنی تو اجازت دے دیں کہ تھوڑا سا گھبرا لیں۔ المیہ یہ ہے کہ آپ مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔ آپ ابھی تک ’’حوروں‘‘ کے جھرمٹ میں ہی گھرے خوابوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں اور یہاں صورت حال یہ ہے کہ قوم کو ہر طرف گدھ، چڑیلیں اور بڑے بڑے مگرمچھ منہ کھولے نظر آتے ہیں جو غریبوں سے روٹی کا آخری نوالا بھی ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

خان صاحب سے کوئی شکوہ نہیں، بس آج پتا چل گیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم نے انہیں غلط ٹیکہ لگا دیا اور پوری قوم اس کے اثرات بھگت رہی ہے۔

دوسری طرف پوری قوم کو ایک اور صدمے نے گھیر لیا ہے کہ ’’میر ے پاس تم ہو‘‘ کا دانش تو مر گیا مگر قوم کی دانش پر بھی پردہ ڈال گیا۔ دانش کے مرنے پر پاکستانی قوم نے گھر گھر جو سات روزہ ماتم کیا، سوگ منایا اور سوشل میڈیا پر جو پاکستانی دانش کی آخری رسوم ادا کی گئیں یہ ہمارے بےحس معاشرے کی ایسی جیتی جاگتی تصویر ہے جو آئے دن ہماری سماجی قبریں کھود رہی ہے۔

کاش کوئی ایک ایسا بھی ہوتا جو ٹی وی کیمرہ مین فیاض کی ناگہانی موت پر بھی ایسی ہی شام غریباں برپا کرتا اور بےحس حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتا اور حکمرانوں کے ایسے کسی فیصلے کی پُرزور مذمت کرتا کہ آئندہ کوئی فیاض بےروزگاری کے ہاتھوں اس طرح دم نہ توڑتا۔ کھیل تماشے میں مست ڈرامے کے لکھاری نے وہی لکھا جو بکتا ہے۔

جھونپڑوں میں رہنے والے روٹی کو ترستے غریب کی داستانیں اور غربت کے ہاتھوں بن بیاہی بیٹیوں کے غموں کی کہانیاں شاید آج کے لکھاری کو خدا کی بستی یاد نہیں۔ لوگوں کی داستانِ غم لکھتے لکھتے قلم کی سیاہی بھی خشک ہونے لگی ہے اور جذبات پہلے سے زیادہ منتشر، مشتعل اور پریشان کُن محسوس ہو رہے ہیں۔

دل دہل جاتا ہے جب کچھ باوقار سفید پوش چہروں کو مرجھائے دیکھتا ہوں، کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے جب کسی کارکن صحافی کو کسی دوست سے معمولی قرضہ مانگتے دیکھتا ہوں اور اسے نفی میں جواب ملتا ہے۔ ہر طرف زندگی کی اُمید دم توڑتی نظر آتی ہے۔ کارکن صحافیوں کے بارے میں جب سوچتا ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ غریب بےروزگار صحافی گھر سے اس آس امید کے ساتھ نکلتے ہیں کہ کوئی انہیں دہاڑی پر مزدوری کیلئے لے جائے۔

آج پاکستان کی صحافت پابہ جولاں ہے۔ جبر و ظلم کے اس دور میں جب حق سچ کی آواز بند ہو جائے تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ نیا پاکستان ترقی کی منازل طے کر پائے گا۔ اور میڈیا کے حوالے سے یہ سوچ کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری سے آپ کی راہ میں حائل کانٹے چُنے جائیں گے؟

آخر آپ جناب سرکار کو اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ سرکار اپنی کوتاہیوں، ناکامیوں، کوتاہ اندیشیوں کا ملبہ آخر میڈیا پر ہی کیوں ڈال رہی ہے۔ آئے دن نئی نئی پالیسیاں، حواس باختہ طرزِ حکومت، کیا یہ سب میڈیا کا کیا دھرا ہے؟

تازہ ترین