• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگلینڈ اور ویلز ہومی سائیڈ متاثرہ خواتین کی تعداد 2006 کے بعد سے بلند ترین سطح پر

لندن (پی اے) انگلینڈ اور ویلز میں ہومی سائیڈ متاثرہ خواتین کی تعداد 2006 کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ مارچ 2019 کو ختم ہونے والے 12 ماہ میں متاثرہ خواتین کے قتل، غیر ارادی قتل اور طفل کشی کے 241 واقعات ہوئے جوکہ سال گزشتہ سے 10 فیصد زیادہ تھے۔ قومی شماریاتی دفتر (او این ایس)کے اعدادوشمار کے مطابق علیحدہ سے ہومی سائیڈ واقعات، جو کہ گزشتہ سال 644 تھے، وہ بڑھ کر 662 ہو گئے۔ تاہم متاثرین کی مجموعی تعداد کم ہو کر 671 پر آگئی جو کہ گزشتہ سال کی تعدادسے 33 یا 5 فیصد کم تھی۔ یہ 2015 کے بعد سے پہلی کمی تھی، حالانکہ 2018 کے اعدادوشمار میں لندن اور مانچسٹر میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد اور شورہام ایئر کریش میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی شامل تھی۔ او این ایس کا کہنا ہے کہ سال بہ سال کی بنیاد پر متاثرین کی تعداد میں کمی کا محرک مرد متاثرین کی شرح 11 فیصد کم ہو کر 484 کی تعداد سے 429پر آ جانا ہے۔ دو تہائی سے کچھ کم (64 فیصد) مرد اور ایک تہائی سے زائد (36فیصد) خواتین تھیں۔ تقریباً نصف (48فیصد) متاثرہ خواتین ایک مقامی ہومی سائیڈ میں ہلاک ہوئیں، جس میں سے 38 فیصد کیسز میں مشتبہ ان کا پارٹنر یا سابقہ پارٹنر تھا۔ اسی اثنا میں ہلاک کئے گئے نوعمر یا شیرخوار بچوں کی تعداد گزشتہ ایک عشرہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، ان ہومی سائیڈ متاثرین میں ایک سال عمر سے چھوٹی 14 بچیاں اور ایک سے چار سال کے درمیانی عمر کے 13 لڑکے شامل ہیں۔ یہ تعداد قبل ازیں دستیاب تعداد کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ مارچ 2009 کو ختم ہونے والے سال میں 6 نوعمر بچیاں اور ایک سے چار سال عمر کے 8 بچے ہلاک کئے گئے تھے۔ مرد و خواتین کی جان لینے کا سب سے عمومی طریقہ چاقو گھونپنا تھا، 259 ہومی سائیڈ واقعات میں تیز دھار آلہ استعمال کیا گیا، گزشتہ سال یہ تعداد 8 فیصد کم ہوئی، 8 فیصد کمی سے اس کی تعداد 23 واقعات کم ہوگئی۔ اینڈ وائلنس اگینسٹ ویمن کولیشن کی ڈائریکٹر سارہ گرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے باعث قتل کے واقعات میں اضافہ پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ہر کیس کا تفصیلی جائزہ لینے اور ان میں ناکامی کی عمومی وجہ دیکھنی ہوگی۔

تازہ ترین