• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل پورے ملک میں یہ بات زیرِ بحث ہے کہ حج مہنگا ہو گیا ہے۔ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ حکومت جو پہلے اس پر سبسڈی دیتی رہی ہے، وہ برقرار رہنی چاہئے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ناصرف موجودہ حکومت بلکہ سابقہ حکومتیں بھی جن کے دور میں ملک معاشی بدحالی کا شکار تھا، اس کے باوجود مختلف چیزوں مثال کے طور ٹرین کا کرایہ، سستی روٹی یا دیگر اشیاء پر سبسڈی دیتی رہی ہیں۔ جب ملک قرضہ لے کر چلایا جا رہا ہے تو پھر سبسڈی دینے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ 

ٹرین پر سفر کرنے والے جہاں بیس روپے کرایہ دے کرسفر کر سکتے ہیں وہاں پچاس روپے بھی ادا کر سکتے ہیں۔ سبسڈی دینے کا مطلب یہ ہے کہ ملک پر قرضے کا مزید بوجھ لاد دیا جائے۔ اس پوزیشن میں میرا نہیں خیال کہ ملک کسی بھی سبسڈی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اب آتے ہیں حج کے حوالے سے دی گئی سبسڈی کی طرف۔ 

حج بلا شبہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور باطنی عبادات میں سب سے بڑی عبادت بھی۔ لیکن اگر اسلام کے بنیادی اصولوں کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ حج اس مسلمان پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو یعنی جو فی زمانہ اس حیثیت کا مالک ہو کہ سفری و دیگر اخراجات اپنی جیب سے پورے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور دیگر تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو چکا ہو۔ 

یہ تو نہیں ہو سکتا کہ جو عبادت انفرادی طور پر کسی پر فرض کی گئی ہے اس کے خرچ کا ایک حصہ حکومتی خزانے سے ادا ہو۔ پھر ایسی ریاست کی طرف سے جس پر معیشت کا اتنا بوجھ ہو کہ خود قرضہ لے کر چل رہی ہو اور دیگر کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہو۔ مجھے دو سال پہلے اپنی فیملی کے ساتھ عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ میں نے وہاں دیکھا کہ اسّی فیصد سے زائد لوگ پاکستانی تھے۔ 

جس مقام پر بھی گئے اکثریت پاکستانیوں کی تھی اور پھر یہ دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا کہ جتنے بھی گداگر تھے، وہ بھی سب پاکستانی تھے جو عمرہ کرنے گئے تھے لیکن وہاں بھیک مانگ رہے تھے۔ قومی غیرت اور وقار کو مجروح کرکے عمرہ یا کوئی بھی عبادت کرنا کیا کارِ ثواب ہے؟ اب وہاں صورتحال یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا کیونکہ یہ وہاں جا کر قوانین کی پابندی نہیں کرتے اور کوئی بھی ایسا کام کرنے سے دریغ نہیں کرتے جس کو معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ 

مزید یہ کہ قوانین کو پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ قطاروں کو توڑنا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانا تو عام مسئلہ ہے۔ جو کچھ میں نے وہاں دیکھا، سوچتی ہوں کہ ہماری قوم کس سے سبق حاصل کرے گی۔ جانے کب باشعور ہو گی۔ کچھ لوگ ملے جنہوں نے فخر سے بتایا کہ انہوں نے پندرہ حج کر رکھے ہیں۔ میں نے استفسار کیا کہ اتنے حج؟ تو کہا، رب کا کرم ہے، اس نے استطاعت دی ہے تو اس کے گھر میں آکر اس کی عبادت اور شکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے حکومت نے اپنی جیب سے پیسے نہیں دینے۔ 

میرے نزدیک غریب عوام کے ٹیکس سے سبسڈی کی مد میں رقم دے کر صاحبِ استطاعت کو حج کروانا درست نہیں ہے۔ خدا کے گھر جاکر ثواب اور معافی طلب کرنے والوں سے گزارش ہے کہ تمام دنیا کے علاوہ وہ ان کے دل میں بھی موجود ہے۔ اس سے سچا رابطہ تو کیجئے۔ وہ کہتا ہے جس نے میرے بندے کی مدد کی، اس نے میری مدد کی۔ اس بات کو سمجھئے۔ بابا فریدؒ نے کہا تھا؎

اُٹھ فریدا ستیا جھاڑو دے مسیت

توں سُتا رب جاگدا تیری ڈاڈھے نال پریت

میں گورنمنٹ کی اس پالیسی کی باقاعدہ حمایت کرتی ہوں کہ اس نے حج پر دی گئی سبسڈی کو ختم کر دیا ہے۔ اسے بالکل ختم ہونا چاہئے کیونکہ ایسی چیزیں حتیٰ کہ کھانے پینے کی چیزوں پر سبسڈی وہ حکومتیں دیتی ہیں جو خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتی ہیں۔ جن کی معاشی حیثیت اس قابل ہوتی ہے۔ 

ایک ایسی ریاست جس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی قرض کی ’’گڑتی‘‘ سے معاشرےکا حصہ بنتا ہے، اس پر سبسڈی کا مزید بوجھ نہیں لادنا چاہئے۔ ہمسایہ ملک کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں کی حکومت اور ریاست مضبوط ہے لیکن ان کی عوام کی حالت اچھی نہیں ہے۔ 

ہم اپنی طرف دیکھیں تو اکثریت خوشحال بلکہ ایک طبقہ تو ایسا ہے جس کی امارت آسمان کو چھوتی دکھائی دیتی ہے اور جس کے اخراجات ملکی اخراجات سے بھی زیادہ ہیں لیکن ہمارا ملک اس حوالے سے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ 

اس طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنا سرمایہ ملکی خراب صورتحال پر خرچ کرے اور وسائل ریاست کی بہتری کے لئے صرف کرے کیونکہ آخر انہوں نے پیسہ یہیں سے کمایا ہے۔ اور آخری بات کہ ہم عمرہ اور حج کرنے کے سے حوالے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں لیکن اس تناسب سے دیانت داری میں آخری نمبروں پر کیوں ہیں۔ نماز میں مسجدیں بھری ہوتی ہیں۔ 

خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ قمیں ہم موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھلائی کیوں نہیں آ رہی۔ یہ سوچنے کا مقام ہے اور سب سے بڑا سوال بھی۔ ہم یہاں ہر گناہ کرتے ہیں، ناجائز پیسہ کماتے ہیں اور بخشوانے کیلئے حج اور عمرہ کرنے کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ 

یہ نہیں سوچتے کہ خدا ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ ہم اپنے ہر عمل کے جواب دہ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے اعمال کو درست کریں۔ دہرے معیارِ کی زندگی سے نکل کر مثبت راستوں کے مسافر بنیں تاکہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہمارا مقدر بنے۔

تازہ ترین