• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا ہوتا قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قومی زبان نافذ کر دی جاتی۔ تمام علوم اردو میں ترجمہ کرنے کے احکامات صرف فائلوں میں مقید نہ رہتے۔ اس مقصد کے لئے قائم کئے گئے اداروں کو عملی نتائج پیش کرنے کی ہدایت کی جاتی، علوم کے تراجم تعلیمی اداروں کے ڈیسکوں تک رسائی پاتے۔

پہلی جماعت سے دسویں تک مادری زبان کا مضمون لازمی قرار دیا جاتا، ایف اے، بی اے میں اختیاری مضمون کے طور پر غیر ملکی زبانوں کے بجائے دیگر صوبوں کی مادری زبانیں پڑھائی جاتیں تو آج ہمیں پاکستان ایک مختلف حالت میں ملتا۔ ہم ایک طاقتور، تہذیب یافتہ، رنگا رنگ ثقافتوں کے موتی ایک مالا میں پرو کر زیادہ دلکشی کے ساتھ حقیقی ہم آہنگی کا تاثر دیتے۔ پھر ہمیں مصنوعی ایکتا کا ڈرامہ کرنے کے لئے مختلف حربے نہ آزمانا پڑتے۔

خود کو یہ جتلانا نہ پڑتا کہ ہم ایک ہیں بلکہ ایک ہونے کا احساس ہمارے دلوں میں غیر ارادی طور پر جگمگاتا۔ اگر مادری زبانوں کا مضمون لازمی کر دیا جاتا تو آج ہر صوبے میں مختلف قومیتوں کے درمیان اجنبیت باقی نہ ہوتی۔

اس خطے کی مادری زبانوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اُردو نے ان تمام زبانوں سے حسب ضرورت استفادہ کرکے اپنا دامن وسیع کیاہے، تبھی وہ رابطے کا وسیلہ بنی کہ اس میں تعلیم نہ ہوتے ہوئے بھی ہر شخص ابلاغ و تفہیم کا ملکہ رکھتا ہے۔

یوں اردو کی ترقی دراصل مادری زبانوں کی بھی ترقی شمار ہوتی اور مادری زبانوں کی ترویج اردو کا سہارا بنتی مگر مادری زبانوں سے دوری نے اردو کو بھی زوال کا شکار کردیا، اپنے وقار اور مورال سے بے خبر لوگوں کی ترجیحات مادیت تک محدود ہوتی ہیں۔

چپکے چپکے انگریزی ہمارے گھروں میں اس طرح داخل ہوئی کہ اس نے ہمارے بچوں کے بستوں سے ہمارا ورثہ، ہماری قدریں، ہماری ثقافت اور ہماری پہچان نکال کر باہر پھینک دی۔

پنجابی بولنے والے کو جاہل اور گنوار کہا جا رہا ہے۔ یہ رویہ ایسے ہی وجود میں نہیں آیا بلکہ بنایا گیا تھا۔ ہم بھی حقیقت سمجھنے کے بجائے شاطر کی چال کا شکار ہوئے اور احساس کمتری کا شکار ہوتے گئے۔

اسی سے بچنے کے لئے ہم نے اپنی زبان کا قتل عام شروع کیا اور اس میں زیادہ حصہ اور کردار ہم عورتوں کا ہے، جو اپنے بچوں سے اپنی زبان میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں بلکہ اکثریت مادری زبان بولنے والے بچے کو گالی دینے سے شدید سزادیتی ہیں۔

میں نے کئی دفعہ دکانداروں، مزدوروں، ڈرائیوروں سے بات چیت کے دوران انھیں پنجابی بولنے کو کہا تو انہوں نے عجیب تاویل پیش کی کہ ہم اس لیے پنجابی نہیں بولتے کیونکہ بیگمات برا مناتی ہیں بلکہ ہمیں ڈانٹتی ہیں۔

بھلا بابا فریدؒ سے میاں محمد بخشؒ تک صوفیاء کی لڑی کی زبان غیر مہذب کیسے ہو سکتی ہے؟ جس میں طبعی اور مابعد الطبیعاتی دنیاؤں کا تذکرہ ہے، تخیل کے کمالات ہیں، دانش کے کرشمے ہیں، دل میں بہنے والے دریا کی سیرابی ہے، روح کے انکشافات ہیں، دھرتی کے درختوں کے پھلوں کی مہک اور پتوں کا سایہ ہے۔ زبان لوگوں کے مزاج کی عکاس ہوتی ہے، اس میں سارے رنگ گھلے ملے ہوتے ہیں۔

پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے اس لیے کہ انیس سو سینتالیس میں جب پاکستان وجود میں آیا تو تقسیم کا درد پنجاب کے حصے میں لکھا گیا، ظلم وزیادتی کے ابواب پنجاب کی دھرتی پر رقم ہوئے، پنجاب نے ہر دکھ جھیلا مگر ملک کی بقا کی خاطر مسکراتا رہا، کسی کو اس کی زہر خند ہنسی میں پوشیدہ درد محسوس نہ ہوا تو زمین نے درد اگلنے شروع کر دیے، دریا نے اشک بہانے شروع کر دیے۔

ہمیں ایسے مسائل میں الجھا دیا گیا کہ دھرتی، دریائوں، درختوں کی آواز ہم تک نہ پہنچ سکے۔ تبھی آنسوؤں کے نمک سے ناقدری کے احساس کے ساتھ مل کر دریاؤں نے دوری اختیار شروع کی۔ راوی جو پنجاب کے دل کا دل تھا ایسا روٹھا کہ ابھی تک ماننے کو تیار نہیں۔ شاید ہم بدل جائیں تو یہ بھی اپنا رویہ بدلیں۔

بہرحال پنجاب سے امتیازی سلوک کا سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ آبادی کی بنا شدید مسائل کا تدارک کرنے کے بجائے اسی آبادی کو جواز بنا کر اس کے سر پر پاکستان کی ٹھیکیداری کی ذمہ داری باندھ دی گئی۔ اسی کو مدنظر رکھتے اس نے ہمیشہ اپنے حصے سے بھی کم پر اکتفا کیا کہ دوسرے راضی رہیں۔ پرویز الٰہی اور شہباز شریف نے ہر آفت اور مسئلے میں نہ صرف پنجاب کے خزانے سے ہاتھ بٹایا بلکہ پورے صوبے کے تمام سرکاری نوکروں کی تنخواہوں سے کبھی ایک اور کبھی دو دن کی تنخواہ منہا کر کے بھیجی۔

جواب میں تشکر کے الفاظ کی بجائے سخت جملہ ہی نصیب ہوا۔ پنجاب بڑے بھائی کا کردار نبھاتا نبھاتا خود مضمحل ہو گیا مگر قربانی کا چلن نہ چھوڑا۔ پنجاب نے تو دوسرے صوبوں کی قومی جماعتوں کو اپنایا جن کے لئے استحصالی قوتوں سے کوڑے کھائے ان سے گالی بھی کھائی۔

اب جبکہ 70 سال ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت گزارے جا چکے ہیں تو آگے منزل مشکل ہونے کا امکان ہے اس لئے کہ اچانک شعور بیدار ہونا شروع ہو چکا ہے لیکن کہتے ہیں کہ اچھائی اور مثبت عمل جب بھی شروع کر لیا جائے ماضی کی کچھ غلطیوں کا تدارک ہو ہی جاتا ہے۔ بس الجھے معاملات کو سنوارنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا ہو شفقت محمود صاحب کا جو اپنی حکومت پاکستان کے منشور یکساں نصاب کو سچ مچ سنجیدہ لے کر کوشاں ہیں۔

شفقت محمود زمینی حقائق سے باخبر ہونے کے سبب مادری زبانوں سے محبت کے دعویدار ہیں۔ اگر وہ یکساں نصاب کے ساتھ پورے ملک میں مادری زبانوں کو دسویں جماعت تک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے کا قانون بھی پاس کرا دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ ملک واقعتا درست سمت میں سفر آغاز کر دے گا۔

یاد رہے 21فروری کا دن مادری زبانوں کی بقا اور ترویج کا دن ہے۔ یہ دن بھی ہماری ہی غلطی کے باعث کیلنڈر پر آیا۔ جب ڈھاکا یونیورسٹی، جگن ناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکا میڈیکل کالج کے طلبہ کے بنگالی کو اُردو کے مساوی قرار دینے کے احتجاج پر گولی چل گئی۔

خدا نہ کرے دوبارہ کوئی ایسی تحریک چلے۔ سرکار کو اُردو اور مادری زبانوں کو اپنا لینا چاہئے۔

تازہ ترین