• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16مارچ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ جب بھی سولہ مارچ کا دن قریب آنا شروع ہوتا ہے میرا خون کھولنے لگ جاتا ہے، میری زندگی میں ایک تلاطم برپا ہو جاتا ہے، میرے دل میں لگا ہوا گھاؤ پھر سے ہرا ہو جاتا ہے۔ 16مارچ گزر جانے کے کئی روز بعد تک میرے اندر بھونچال آتے رہتے ہیں۔ میں غم سے نڈھال رہتا ہوں۔ ایک دو ہفتوں پر محیط اس کیفیت میں، میں خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے طوفان کو ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے پیکر میں ڈھالنے کی سعی کرتا رہتا ہوں۔میں خود کلامی کرنے لگتا ہوں ، ” ہاں ہم ایک غلام قوم ہیں۔ ہاں ہم نے چند ٹکوں کی خاطر اپنی آزادی اور خود مختاری گروی رکھی ہوئی ہے۔ ہاں ہم سرتاپا کرپشن، بدانتظامی، سفارش، جھوٹ ، منافقت اور فریب کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ہاں ہماری اشرافیہ دنیا کی نااہل ترین اشرافیہ ہے“۔ جب میری سانس اکھڑنے لگتی ہے تو میں خاموش ہو جاتا ہوں ۔ ایک لمبی سانس لینے کے بعد میں خود سے دوبارہ مخاطب ہوتا ہوں ”لیکن میں ہار نہیں مانوں گا۔ میں جدوجہد کروں گا، آزادی کی جدوجہد!! میں جدوجہد کروں گا، ایک خودمختار پاکستان کی جدوجہد!! میں جدوجہد کروں گا، اخلاقی اقدار کی بحالی کی جدوجہد!! میں جدوجہد کروں گا، اشرافیہ کے احتساب کی جدوجہد!!
16مارچ2011ء کو میں وزارتِ خارجہ میں اپنے نئے دفتر میں کوئی2بجے کے قریب پہنچا تھا، مجھے بتایا گیا تھا کہ اس دفتر میں کیونکہ ریمنڈ ڈیوس کا حساس معاملہ زیرِ التوا ہے اس لئے مجھے خصوصی طور پر اس دفتر میں تعینات کیا جا رہا ہے۔ مجھے فوری طور پر چارج لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ میں نے جلدی سے اپنے دفتر جا کر چارج لینے کی رپورٹ تیار کی اور نئے دفتر کا جائزہ لینے لگا۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ وزارتِ خارجہ کیلئے جتنا حساس تھا، میں اس معاملے میں اس سے بھی زیادہ حساس تھا۔ میں ایک آدھ مہینہ پہلے ہی بیجنگ میں تعیناتی سے واپس آیا تھا اور پاک چین دوستی کا پھول میرے نزدیک تازہ تازہ کھلا تھا۔ چین جیسے ”دوست“ ملک میں بھی ہمارے سفارت کاروں کو چھوٹی چھوٹی سہولتوں کیلئے خوار ہونا پڑتا ہے اور اکثر اوقات کوئی خاص کامیابی نہیں ہوتی۔ میں اکثر کُڑھتا رہتا تھا کہ ہم ہر کسی کے اتنا نیچے کیوں لگ جاتے ہیں۔ ہم بحیثیت ملک نہ تو اپنے دوستوں کے ساتھ برابری اور وقار کا رشتہ قائم کر پائے ہیں اور نہ ہی دشمنوں کے ساتھ۔ اتنے میں ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا اور ان کو مارنے کیلئے گولیاں بھی وہ استعمال کیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت بطورِ خاص ممنوع ہیں۔ اس کی گاڑی سے ممنوعہ اسلحہ، جاسوسی کے آلات اور مواد بھی برآمد ہوئے۔ اس کو بچانے کیلئے آنے والی گاڑی نے عماد الرحمن کو بے دردی سے کچل دیا اور واپس امریکی قونصل خانے میں جانے کے بعد پھر نہ وہ گاڑی ملی نہ اس گاڑی کو چلانے والے۔ ریمنڈ ڈیوس عوام کے نرغے میں آ گیا اور پکڑا گیا ورنہ اگر اس کو پانی کی بوتل دینے کیلئے پیسے مانگنے والی پولیس یا پھر امریکی غلامی پر تُلی ہوئی صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا بس چلتا تو اسے موقع سے ہی فرار کروا دیتے۔ میں وزارتِ خارجہ کے باخبر لوگوں سے اس کے کیس کے بارے میں پوچھتا رہتا اور مجھے ایسے اشارے ملتے رہتے کہ اسے بہت جلد چھوڑ دیا جائے گا۔ اسی اثناء میں مقتول فہیم کی بیوہ نے یہ کہتے ہوئے خودکشی کر لی کہ اسے یقین ہے کہ اس کو انصاف نہیں ملے گا۔ فہیم کی بیوہ کی اس فوٹیج نے میری زندگی بدل دی۔ میں نے اس دن فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اس کیس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا لیکن میں کیا کر سکتا تھا، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
انہی دنوں، ٹھیک سے یاد نہیں کہ اس واقعے سے پہلے یا بعد میں انگلینڈ میں ہمارے ایک سینئر سفارت کار کی وہاں کے ٹریفک وارڈن کے ساتھ نوک جھونک ہو گئی۔ ٹریفک وارڈن نے شاید ان کا چالان کر دیا اور ان کا کہنا تھا کہ ان کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے لیکن اس واقعے کے بعد انگلینڈ نے پاکستان سے درخواست کی کہ ان سفارت کار صاحب کو واپس بلا لیا جائے۔ وہ صاحب واپس بلا لئے گئے اور کافی دیر بعد انگلینڈ کی حکومت نے پاکستان سے معذرت کی اور کہا کہ وہ اپنے ٹریفک وارڈنز کو سفارتی استثنیٰ کے بارے میں خصوصی تربیت دیا کریں گے۔ ہمارے اصلی سفارت کاروں کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ملے اور ان کے جعلی سفارت کار یہاں تین قتل کر دیں، جاسوسی جیسے سنگین جرائم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں، اس پر مقتول کی بیوہ مایوس ہو کر خودکشی کر لے لیکن!!! لیکن ساری کی ساری ریاستی مشینری اور ریاستی ادارے، ساری کی ساری حکومتیں، سارے کے سارے …مقتولین کے ورثا کو ہراساں کرنے اور لالچ دینے میں جٹے ہوں کہ کسی نہ کسی طرح ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر کے امریکہ بھیج دیا جائے۔ میں ان باتوں پر سخت ہیجان میں مبتلا تھا اور میں نے کئی راتیں آنکھوں میں گزاریں، میں ”کچھ نہ کچھ “کرنے کے منصوبے بناتا رہتا۔ ایک خیال یہ آیا کہ میں وزارت کے تمام دفاتر میں ایک پرچہ پھینکوں اور اس میں یہ لکھوں ”آپ سب سفارت کاری کے شعبے سے منسلک ہیں اور آپ اصلی سفارت کار ہیں،کیا آپ نے کسی دوسرے ملک میں کبھی ممنوعہ اسلحے، ہائی ٹیک کیمروں، حساس عمارتوں کی تصاویر کے ساتھ لوگوں کو قتل کیا ہے؟اور فرض کر لیں کہ آپ نے ایسا کیا ہو تو وہ ملک آپ کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟“میں نے اس طرح کی عبارت کے کئی ایک متن بھی تیار کئے لیکن حوصلہ نہیں ہوا پھر میں نے وزارتِ خارجہ میں اپنے ایک دو اعتماد کے دوستوں سے وعدہ لیا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا گیا تو ہم ملکر احتجاج کریں گے۔ میں یہ بھی سوچتا رہا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑا گیا تو میں وزارت ِ خارجہ کے صدر دروازے پر پوسٹر لیکر سیکریٹری خارجہ کے خلاف نعرے بازی شروع کر دوں گا، ہو سکتا ہے کہ اور لوگ بھی شامل ہو جائیں اور سیکریٹری کیلئے وہاں ایک مشکل صورتحال بن جائے۔
مجھے بڑا عجیب تجربہ ہوا۔ ان دنوں ایک فلم کا ڈائیلاگ بہت مشہور تھا کہ جب کسی کے دل میں سچی تڑپ پیدا ہوتی ہے تو زمین وآسمان اس کی تڑپ پوری کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جس روز ریمنڈ ڈیوس کو انتہائی شرمناک طریقے سے رہا کروا کے بغیر پاسپورٹ کے افغانستان فرار کرایا گیا، اسی روز چند گھنٹے پہلے مجھے وزارتِ خارجہ کے اسی دفتر کا چارج بطورِ خاص لینے کی ہدایت کی گئی جہاں یہ کیس ڈیل کیا جا رہا تھا۔ اس روز ریمنڈ ڈیوس کی تاریخ تھی اور چارج لینے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ پر تازہ ترین خبروں کا جائزہ لینے لگا۔ جیسے ہی سائٹ کھلی، میرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا گیا تھا، تھوڑی ہی دیر بعد تازہ خبر لگائی گئی کہ وہ پاکستانی حدود سے باہر جا چکا ہے۔ میں چند منٹوں کیلئے ساکت اپنی کرسی پر پڑا رہا۔ اس دوران میرا ذہن کھل چکا تھا ، میں آزادی حاصل کر چکا تھا۔ میں نے کاغذ قلم اٹھایا اور احتجاجاً استعفی لکھ کر سیکریٹری خارجہ کے دفتر میں دے دیا۔ اس کے بعد میں نے کبھی اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جب کچھ سینئر دوستوں نے استعفیٰ واپس لینے کیلئے زور ڈالا تو میں نے ایک شرط پر استعفیٰ واپس لینے پر آمادگی ظاہر کی کہ سیکریٹری خارجہ مستعفی ہوں، قوم کو حقائق سے آگاہ کریں اور قوم سے معافی مانگیں تو میں اپنا استعفیٰ واپس لے لوں گا۔ ایسا ہونا تھا نہ ہوا بلکہ مزے کی بات ہے کہ موصوف ریٹائر ہونے کے بعد بھی ابھی تک ایکسٹینشن پر نوکری کر رہے ہیں۔اور میں!! میں اپنی جدوجہد میں مصروف ہوں۔ سیاسی جدوجہد بھی کر رہا ہوں اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ بڑے بڑے خواب بنتا ہوں اور ان کے پیچھے سر پٹ دوڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کیلئے بہت پُرامید ہوں۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے ہوں ۔ کبھی کبھی تو میرا دل چاہتا ہے کہ گلا پھاڑ کر کہوں ”شکریہ، ریمنڈ ڈیوس“۔پاکستانیوں کے قتل کے الزام میں ریمنڈ ڈیوس پر امریکی وعدے کے باوجود امریکہ میں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ البتہ پارکنگ پر جھگڑے کے دوران ایک امریکی کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے جرم میں اس کو حال ہی میں دو سال پروبیشن قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پسِ تحریر: فروری 2012ء میں اٹلی کے دو کمانڈوز نے دو بھارتی ماہی گیروں کو گولی مار دی۔ ان کو گرفتار کر کے بھارت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس دوران بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے انہیں ووٹ ڈالنے کیلئے چار ہفتے کیلئے اٹلی واپس جانے کی اجازت دی لیکن اٹلی واپس جا کر اٹلی کی حکومت نے انہیں واپس بھارت بھیجنے سے انکار کر دیا جس پر چند روز پہلے بھارتی وزیراعظم کا سفارتی لحاظ سے بڑا سخت بیان آیا ہے کہ اگر اٹلی نے کمانڈوز کو بھارت کے حوالے نہ کیا تو اس کے (سنگین) نتائج ہوں گے۔
تازہ ترین