• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹھارہ ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تشدد میں کمی کا معاہدہ طے پانے کے بعد اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ پانچ دنوں کے دوران ملک بھر میں تشدد کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔

جس سے بظاہر لگتا ہے کہ فریقین سات روزہ عبوری معاہدے کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ بالخصوص طالبان کی طرف سے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کی تفصیلات وہ وقتاً فوقتاً صحافیوں کو بھی بھیجتے رہے ہیں۔

اگر امریکہ اور طالبان کے مابین واقعی امن معاہدہ طے پاتا ہے تو یہ افغانستان کی گزشتہ چالیس سالہ تاریخ میں ایک بہت بڑی پیشرفت ثابت ہوگا لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ جو اصل مرحلہ ہے اس کا یہیں سے آغاز ہوگا، یہ اہم مرحلہ بین الافغان یا طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل کا ہوگا جس کے بارے میں پہلے سے کئی قسم کے خدشات پائے جاتے ہیں۔

ان خدشات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب امریکہ اور طالبان کے مابین عبوری جنگ بندی پر ابھی صلاح مشورہ جاری تھا کہ افغان صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا جن میں موجودہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب قرار دیے گئے لیکن توقع کے عین مطابق اشرف غنی کے سب سے بڑے مخالف امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نہ صرف نتائج ماننے سے انکار کر دیا بلکہ اس سے بھی چند قدم آگے بڑھتے ہوئے متوازی حکومت بنانے کا اعلان کر دیا۔

تاہم جب تک اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان معاملات حل نہیں کرائے جاتے اس وقت تک بین الافغان مذاکرات پر خطرے کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔

بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کے لیے طالبان قیدیوں کی رہائی سب سے ایک اہم شرط سمجھی جاتی ہے۔ لگ بھگ پانچ ہزار طالبان قیدی اس وقت افغانستان کی مختلف جیلوں میں پابندِ سلاسل ہیں جو افغان حکومت کے ہاتھ میں ایک بڑا ’ہتھیار‘ سمجھا جاتا ہے۔

طالبان کا ابتدا ہی سے مطالبہ رہا ہے کہ افغان حکومت سے بات چیت سے قبل قیدیوں کی رہائی لازمی ہے ورنہ وہ کسی صورت مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن دوسری طرف اگر قیدیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو افغان حکومت کے پاس مستقبل میں کوئی ایسا ’ہتھیار‘ نہیں بچے گا جس سے ممکنہ طور پر حالات کی خرابی کی صورت میں طالبان کو رام کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

بین الافغان مذاکرات کے لیے افغان حکومت کی ٹیم کا چناؤ بھی ایک بڑا اہم چیلنج سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ڈاکٹر اشرف غنی کی کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیار ان کے ہاتھ میں رہے لیکن دوسری طرف ان کے مخالفین ڈاکٹر عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے لوگ بھی ٹیم کا حصہ ہوں اور انہیں بھی کوئی کردار دیا جائے۔

گزشتہ اٹھارہ سال کے دوران افغانستان میں جن اداروں کا قیامِ عمل میں لایا گیا ہے، ان میں افغان آئین اور افغان فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کا قیام قابلِ ذکر ہے، ان کے بارے میں طالبان کا موقف سخت گیر رہا ہے۔ پہلے وہ افغانستان کے آئین کو ماننے سے انکار کرتے تھے تاہم حالیہ دنوں میں ان کے موقف میں کچھ نرمی آئی ہے۔

ان کا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے آئین میں ترامیم کرکے اسے مزید اسلامی بنایا جا سکتا ہے لیکن یہ وہ ادارے ہیں جنہیں افغانستان میں ’ریڈ لائن‘ بھی کہا جاتا ہے اور جس پر گزشتہ وقتوں میں افغان حکومت کسی قسم کی سودے بازی کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔

اقتدار میں شراکت داری کا معاملہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے طے کرنے میں فریقین کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پہلے عبوری سیٹ اَپ بنے گا یا انتخابات ہوں گے۔

طالبان دبے لفظوں میں اس بات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ اگر وہ امریکہ کو افغانستان سے بےدخل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر انہیں اقتدار میں زیادہ حصہ ملنا چاہئے۔ افغان حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ ان کا طالبان سے پہلا مطالبہ یہ ہوگا کہ انہیں اپنے پڑوسیوں سے تعلقات کو واضح کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں انہیں ٹھوس ضمانت دینا ہوگی۔

بین الافغان مذاکرات مارچ کے دوسرے ہفتے میں شروع ہونے کا امکان ہے۔ ان کے انعقاد کے سلسلے میں یورپی ممالک جرمنی اور ناروے کے بارے میں صلاح و مشورے جاری ہیں۔

2001ء میں جب طالبان کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت بھی افغان حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات جرمنی کے شہر بون میں ہوئے تھے جہاں حامد کرزئی کو صدر مقرر کیا گیا تھا لیکن یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ افغانستان کے لوگوں کے بارے میں مشہور ہے کہ بیرونی دشمن سے ان کے معاملات تو حل ہو جاتے ہیں لیکن ان کے آپس کے مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوتے۔

نوے کے عشرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین گروہ آپس میں لڑ پڑے تھے۔

اس خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔ افغان عوام گزشتہ چار دہائیوں میں جس کرب ناک صورتحال سے دوچار ہوئے اس کی مثال موجودہ دور میں نہیں ملتی۔ لہٰذا وہ کسی صورت دوبارہ اس طرح کی غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

تازہ ترین