میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طاہر حبیب
عکّاسی: اسرائیل انصاری
آج غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ مجھے پتا نہیں ہے کہ کل ڈالر کا ریٹ کیا ہو گا؟۔ اگر مجھے اپنے ورکنگ کیپٹل میں سے سوا تیرہ فی صد مارک اَپ نکالنا پڑے تو میرے کاروبار کا کیا ہو گا؟
میں گھر سے تو مارک اَپ نہیں دوں گا۔ اگر میں مارک اَپ ہی دیتا رہوں گا تو انڈسٹری کیسے چلے گی؟ اگر انڈسٹری بند ہو گئی تو ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے،اب نئی انڈسٹری کہاں سے آئے گی
عبدالحسیب خان
افراط ِ زر، روزگار، غربت یہ معیشت سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے، معیشت بہتر ہو تو یہ سب چیزیں صحیح سمت میں ہوتی ہیں، معیشت کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت وینٹی لیٹر پر ہیں، ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہم مکمل قرض پر چل رہے ہیں جس دن قرض کا یہ نلکا بند ہوا اس دن معیشت بیٹھ جائے گی،ملک بیٹھ جائے گا۔
حکومت کے پاس ریونیو ہی نہیں نہ جمع کر پا رہے ہیں۔ پچھلے سال جو جمع کیا تھا وہ بھی جمع نہیں کر پا رہے ہیں،
ڈاکٹر قیصر بنگالی
افراط ِ زر اس وقت تیرہ فی صد ہے، لیکن حقیقتاً اصل افراط زر دو گنے سے بھی زیادہ ہے، ہماری معیشت انحطاط کا شکار ہے، ایک طرف آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے دوسری طرف لاگت بڑھتی جا رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ ایلیٹ طبقے نے ہر جگہ غلبہ حاصل کر لیا ہے،دنیا میں کوئی ملک چندے پر نہیں چلتا آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہمارے ملک میں چند ہ دھندا بن گیا ہے،ملازمتیں پیدا کرنی چاہئیں، روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں اس کے نتیجے میں خود انحصاری آئے گی
احمد جلال
جنگ فورم میں آپ سب کو خوش آمدید، ہمارا آج کا موضوع ہے ’’مہنگائی اور غربت اور اس میں کمی کی حکمت عملی کیا ہو گی۔ اس وقت میں کہوں کہ سب ہی مہنگائی کے مارے ہوئے ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ کیوںکہ ہیلتھ ہو، ایجوکیشن ہو یا کچن ہو، حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ افراط ِ زر بے شک زیادہ ہو لیکن کم از کم کچن کا حساس انڈیکس کم رہے۔ لیکن آج ملک میں حساس انڈیکس ہی زیادہ ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق 30 فی صد حساس انڈیکس کا تناسب ہے۔ جس میں آنا، چینی دال چاول، سبزی وغیرہ شامل ہیں۔ ہم نے آج موضوع کی مناسبت سے گہرا تعلق رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر اسپیکر موجود ہوں۔ سینیٹر حسیب خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سوشل سیکٹر میں ان کی خدمات ہیں اُن سے سب ہی واقف ہیں۔
ہیلتھ اور ایجوکیشن میں خاص کر ہم انہیں سوشل سائنٹٹ کا نام دیتے ہیں۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر ہیں۔ فارما سیوٹیکل ایسوسی ایشن کے بھی چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سینیٹر کی حیثیت سے بھی انہوں نے ہیلتھ سیکٹر میں خاصا کام کیا تھا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی بہت معروف اکانومسٹ ہیں، ان کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے معاشی مشیر رہ چکے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں بھی دونوں صوبوں کی نمائندگی کی ہے۔ اس وقت بھی سندھ حکومت کے ایک پروجیکٹ سے منسلک ہیں جناب احمد جلال صاحب جنگ فورم میں پہلی بار شرکت کر رہے ہیں انہیں خوش آمدید کہوں گا۔ آپ کورڈوبا فائونڈیشن کے سابق چیف ایگزیکٹو تھے ۔
جنگ :آپ کیا کہتےہیں اس بارے میں، ڈاکٹر پاشا کے مطابق ملک میں بیس بائیس لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ ہے اور تیس فیصد کا تناسب ہے۔ اسی لاکھ افراد خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔ آپ حکومت کو کیا ایڈوائس کریں گے کیا وجہ ہے کہ مہنگائی کا ریشو بڑھ رہا ہے۔
احمد جلال: بہت بہت شکریہ آپ نے اس اہم موضوع پر بات کرنے کا موقع دیا۔ میں دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہمیں گفتگو کے لئے جگہ فراہم کی۔ مہنگائی اس وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے، آپ امیر ہوں یا غریب، کچن اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ افراط ِ زر اس وقت تیرہ فی صد ہے۔ لیکن حقیقتاً اصل افراط زر دو گنے سے بھی زیادہ ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ہے کہ ہماری معیشت انحطاط کا شکار ہے۔
ایک طرف آمدنی نہیں بڑھ رہی ہے دوسری طرف لاگت بڑھتی جا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایلیٹ طبقے نے ہر جگہ غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں فری فار آل کیپچر ہے۔ تو ہر وہ بندہ جو دسترس رکھتا ہے۔ اپنے طریقے سے نظام کو پامال کرکے اپنا منافع بنا لیتا ہے۔ یعنی سسٹم کی نفی کر کے اپنا فائدہ حاصل کر لیتا ہے۔ آپ کو میں ایک مثال دیتا ہوں کہ جس چیز کی جو قیمت ہے وہ اس سے زیادہ پر فروخت ہو رہی ہے۔ یعنی پانی کی بوتل تیس روپے کی ہے تو دکان دار اسے یہ کہہ کر زیادہ قیمت پر دیتا ہے کہ میں اسے ٹھنڈا کرکے دے رہا ہوں یہ دنیا میں کہیں نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہئے۔ یہ افراط ِ زر نہیں ہے۔
یہ لاقانونیت کی ایک شکل ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے قوانین ہیں مگر کتابوں کی حد تک اُن پر عمل درآمد نہیں ہوتا جو نفاذ کے ذمے دار ہیں وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ کوئی دیکھے نا۔ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ اپنے فائدے کا رجحان ہے خواہ دوسرے کو نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کمپی ٹیشن (مقابلہ یا مسابقت) نہیں ہے۔ جو بھی سیکٹر ہیں ان میں زیادہ تر ہے۔ ہمارا ہاں ایک ادارہ ہے، مسابقتی کمیشن جو کاغذ پر تو موجود ہے۔ لیکن اس کا کردار وہ نہیں جو ہونا چاہئے۔ ہمارے ملک میں عوامی مفاد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جب کہ دنیا بھر میں اس کا خیال رکھا جاتا ہے۔
دنیا کی ایک بڑی کمپنی ہے مائیکرو سوفٹ، لیکن اُسے بھی ایک حد سے زیادہ آگے جانے نہیں دیا گیا بلکہ اس پر جرمانہ تک ہوا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ یہ کام حکومت کا ہوتا ہے، اس کے نیچے اداروں کا ہوتا ہے۔ ہم افراط ِ زر، مہنگائی اور غربت کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اگر ہم مختلف گروپس کے مفادات کو تحفظ دینے کے بجائے عوام کے مفاد کے لئے کام کریں۔ ہم ایک ہتھوڑا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہے انٹرسٹ ریٹ، یہ ایک آسان کام ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں لوگ پس جاتے ہیں۔
جنگ: عمران خان نے کہا تھا کہ ہم مہنگائی کم کردیں گے۔ اسد عمر نے بھی یہی کہا لیکن جب اقدامات سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ اسٹور کھول رہے ہیں۔ احساس پروگرام کر رہے ہیں۔ کیا ان اقدامات سے غربت اور مہنگائی ختم ہو سکتی ہے؟؟
احمد جلال: دنیا میں کوئی ملک چندے پر نہیں چلتا آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ہمارے ملک میں چند ہ دھندا بن گیا ہے۔
اگر کسی ملک نے چیریٹی پر یا ڈونر ایجنسی کو فروغ دیا ہو تو مجھے بتا دیں ملک جو کرتے ہیں اپنی اہلیت پر انڈسٹریز سے، سماجی اقدامات ہونے چاہئیں لیکن اپنے لیول پر۔ یہ آمدنی بڑھانے کا متبادل نہیں ہے۔ ملازمتیں پیدا کرنی چاہئیں، روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں اس کے نتیجے میں خود انحصاری آئے گی۔ آپ کی بات صحیح ہے کہ حکومت کی پالیسیز درست نہیں ہیں۔
جنگ: آپ امن فائونڈیشن سے منسلک تھے،پوچھنا یہ ہے کہ یہ جو این جی اوز ہیں ان کا کیا کردار ہوتا ہے۔ غربت میں کمی یا خاتمے کے لئے؟
احمدجلال: میرا نقطہ نظر یہی ہے کہ حکومت کو نہایت مستعدی اور تندہی سے اپنی خدمات کو بڑھانا چاہئے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ریاست اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے مختلف سماجی شعبوں میں خلا ء پیدا ہوتا ہے جسے این جی اوز پر کرتی ہیں لیکن ریاست کا جو کردار ہوتا ہے وہ این جی اوز ادا نہیں کر سکتیں ان کے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں ہوتے۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں پاکستان میں پچیس ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ پاکستان میں جو سب سے بڑی این جی او ہے اس میں ڈھائی لاکھ بچے آتے ہیں۔
یعنی آپ کو پچیس ملین بچوں کے لئے ایک سو این جی اوز قائم کرنا پڑیں گی۔ اُن کی فنڈریزنگ کرنا پڑے گی۔ تاکہ یہ مسئلہ حل ہو، اس بڑی این جی او کا بجٹ چالیس ملین ڈالر ہے یعنی آپ کو ایک سو این جی اوز کے لئے چار سو ملین ڈالر کا چندہ اکٹھا کرنا ہو گا۔ بہتر راستہ یہی ہے کہ ہم حکومت پر زور دیں کہ وہ رقم صحیح جگہ اور صحیح طریقے پر خرچ کرے آپ کو چیریٹی کی ضرورت نہیں رہے گی۔
جنگ: اب ہمارا سوال ڈاکٹر قیصر بنگالی سے ہے۔ غربت آپ کا خاص شعبہ ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کئی کتابیں بھی ہیں۔ ہم بات کریں کہ ہم پرانے پاکستان سے نئے پاکستان میں آگئے ہیں۔ آپ بتائیں گے کہ پرانے اور نئے پاکستان میں غربت کا لیول کیا ہے بہتر ہوا ہے یا ہم نیچے گئے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے اور ہم اس کو کس طرح دور کریں گے اور ہمیں کتنا عرصہ درکار ہو گا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی: پہلے تو آپ کا شکریہ، دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ کا بھی آپ نےاور احمد جلال نے جتنی باتیں کی ہیں ان کی تائید کرتا ہوں۔ میں یہاں سے شروع کروں گا کہ افراط ِ زر، روزگار، غربت یہ معیشت سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ معیشت بہتر ہو تو یہ سب چیزیں صحیح سمت میں ہوتی ہیں۔ معیشت کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت وینٹی لیٹر پر ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے اور ہم مکمل قرض پر چل رہے ہیں جس دن قرض کا یہ نلکا بند ہوا اس دن معیشت بیٹھ جائے گی۔ ملک بیٹھ جائے گا۔ حکومت کے پاس ریونیو ہی نہیں نہ جمع کر پا رہے ہیں۔ پچھلے سال جو جمع کیا تھا وہ بھی جمع نہیں کر پا رہے ہیں حکومت کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہیں ہوں گے۔ فوج کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہوں گے۔ ہم اس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں کیوں یہ اہم ہے روزگار وغیرہ، کیوں کہ اس کی قیمت عوام ادا کریں گے۔
جس کے پاس اثاثے ہوں جس کے پاس بچت ہے بنک میں، اپنا ذاتی گھر ہے وہ تو گزارہ کر لیں لیکن جو کرائے پر رہتے ہیں انہیں مالکان سے نوٹس ملیں گے کہ کرایہ بڑھائو یا مکان خالی کرو۔ ہفتے میں کم ازکم ایک دن ہمیں کوئی فون کر کے کہتا ہے کہ ادارے بند ہو رہے ہیں۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں، کاروبار بند ہو رہے ہیں جن کے پاس بیس پچیس سال سے نوکری تھی۔ وہ اب بے روزگار بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی مالک مکان کو دینے کے لئے پیس نہیں ہیں۔ مالک مکان کہتا ہے کہ خالی کرو۔ کہاں جائیں یا جو لوگ غربت کی لکیر کے نیچے نہیں تھے اب وہ غربت کی لکیر کے نیچے آگئے ہیں۔ جن کے پاس روزگار نہیں ہو گا ان کے لئے افراط ِ زر کوئی معنی نہیں رکھتا روٹی دس روپے کی ہو یا پندرہ روپے کی وہ تو دس روپے کی روٹی بھی نہیں خرید سکتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے۔
جسے افراط ِ زر سے فرق نہیں پڑتا۔ ان کے پاس روزگار ہی نہیں ہے۔ آمدنی نہیں ہے، بہت ساری این جی اوز بند ہو رہی ہیں۔ این جی اوز کے پروگرام بند ہو رہے ہیں، پروجیکٹ پر کام کرنے والے ملازمین فارغ کر رہے ہیں۔ میڈیا میں بہت بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوئی ہے۔ تنخواہوں کے مسئلے ہیں آپ کا آج کا جو موضوع ہے اس کے بارے میں کہوں گا کہ دو وجوہ ہوتی ہیں قیمتیں بڑھنے کی۔ ایک سپلائی سائیڈ ہے دوسری کاسٹ سائیڈ کسی وجہ سے لوگوں کے پاس بہت پیسہ آجائے، باہر سے پیسہ آنے لگے حکومت زیادہ نوٹ چھاپنا شروع کر دے۔ حکومت کوئی بہت بڑا پروجیکٹ بناتی ہے جس سے لوگوں کو ملازمتیں ملیں۔ لوگوں کو ٹھیکے دینے جاتے ہیں بڑا کام ہو رہا ہے یا کوئی ڈیم بن رہا ہے۔
لوگوں کے پاس پیسے آجاتے ہیں جب لوگوں کے پاس زیادہ پیسے آجاتے ہیں لیکن سپلائی کم ہو۔ یعنی مارکیٹ میں اگر کسی دکان دار کے پاس پانی کی تین بوتلیں رکھی ہوں اور ان کے تین ہی خریدار ہو تو قیمت مستحکم رہے گی لیکن اگر چھ خریدار آجائیں تو دکان دار سوچے گا کہ میں اس کی قیمت بڑھا دوں کون لے پاتا ہے۔ اور کون نہیں لے پاتا اگر میں قیمت تیس کی جگہ چالیس روپے کر دوں تو تین خریدار بغیر خریدے چلے جائیں گے لیکن باقی تین میری مقرر کردہ قیمت پر خرید لیں ، یعنی سپلائی بڑھنے سے قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ پانی کی ایک بوتل پر لاگت بیس روپے آتی ہے میں اُسے پچیس روپے میں بیچ رہا ہوں۔
لیکن اگر میری کاسٹ بڑھ جائے گی تو اس کی قیمت تیس روپے کر دوں گا۔ کاسٹ کس طرح بڑھتی ہے۔ بجلی کی قیمت بڑھ جائے۔ ٹیکس کی قیمت بڑھ جائے تو میرے کارخانے کا بل زیادہ آئے گا۔ تنخواہیں بڑھ گئیں کسی وجہ سے تو بھی کاسٹ بڑھ جائے گی۔ اگر اس میں کوئی درآمد شدہ چیز بکتی ہے یا کرنسی ڈی ویلیو ہو گئی ڈالر کا ریٹ بڑھ گیا۔ پہلے ایک سو روپے کا تھا، اب ڈیڑھ سو کا ہو گیا تو وہ چیز بھی مہنگی آئے گی تو کاسٹ سائیڈ سے چیز مہنگی ہوتی ہے۔ اس پاکستان میں قوت خرید میں اضافہ صفر ہے بلکہ کم ہو گیا ہے۔ مجھے ایک شخص ملا جس کی کھلونوں کی دکان تھی جواس نے بند کر دی میں وجہ پوچھی تو کہا جناب اب سیل نہیں ہے۔ کھلونا تو ایک لگژری ہے جس گھر میں روٹی نہیں ہوگی وہ اپنے بچوں کے لئے کھلونا کیا لے گا، تو اس وقت ڈیمانڈ سائیڈ سے افراط زر نہیں ہے، یہ سپلائی سائیڈ سے ہے، حکومت میں آنے والے لوگوں نے آنے کے ساتھ ہی روپیہ چالیس فی صد ڈی ویلیو کیا۔ ایک سو پانچ روپے سے لے گئے۔155روپے تک۔
جنگ : 165تک گیا تھا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی: جو چیز پہلے ایک سو پانچ روپے میں آتی تھی وہی چیز اب 155روپے میں آنے لگی تو کاسٹ آف پروڈکشن بڑھ گئی۔ پھر آپ نے بجلی کی قیمت بڑھا دی، گیس کی قیمت بڑھا دی، پٹرول کی قیمت بڑھ گئی۔ انٹرسٹ ریٹ ڈبل کر دیا سوا تیرہ فی صد ہو گیا۔
ہر فیکٹری ہر کارخانہ ورکنگ کیپٹل کے لئے قرضہ لیتا ہے۔ کوئی آرڈر آ جاتا ہے۔ اس کے لئے خام مال خریدنا ہو تو کارخانہ یا فیکٹری بنک سے قرضہ لے کر خام مال حاصل کرتا ہے مال بنایا۔ فروخت کیا، بینک کے پیسے واپس کر دیئے یہ شارٹ ٹرم قرضہ ہوتا ہے جب انٹرسٹ ریٹ بڑھا تو لاگت بڑھ گئی۔ اس طرح بہت سی فیکٹریوں میں کام ٹھپ ہو گیا۔ ایک نیا کام یہ ہوا کہ حکومت نے ٹیکس وصول کرنے کے لئے ’’جہاد‘‘ شروع کر دیا۔ پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔ یہا ں تک کہ سڑک پر چلنے والے کو اٹھالیتے ہیں۔ لاکرز سیز کر دیں گے۔ اکائونٹ منجمد کر دیں گے۔ ایف بی آر کے چیئرمین، وزیر خزانہ سے لے کر وزیراعظم تک کی زبان دھمکی آمیز تھی۔ یعنی کہ سارے بزنس مین چور ہیں بس ہم ان کو پکڑیں گے، ٹانگیں گے چوں کہ ہماری معیشت کم زور ہے تو بہت سے بزنس مین بہت کم منافع پر کام کرتے ہیں۔
لہٰذا دیکھا جائے تو وہ پہلے ہی خسارے میں ہے۔ میں اگر دکان چلا رہا ہوں اور میری دس ہزار روپے روز کی سیل ہے تو یہ میرا نفع نہیں ہے۔ میں اپنی تنخواہ اس میں کائونٹ نہیں کرتا اگر معاشیات کی رو سے اپنی تنخواہ شامل کرلوں تو ویسے ہی خسارے میں چلا جائوں گا۔ جو ٹیکس نہیں دیتا، دراصل یہی ٹیکس اُس کا پرافٹ ہے۔ آپ نے اس سے زبردستی ٹیکس لیا، وہ خسارے میں چلا گیا اس نے کاروبار ہی بند کر دیا۔ اس طرح آپ کو جو تھوڑا بہت ٹیکس مل رہا تھا وہ بھی نہیں ملے گا۔
جنگ: ہمارے ہاں جو افراط ِ زر ہے وہ خوراک میں زیادہ ہے یعنی دودھ، چینی، گندم وغیرہ تو حکومت، اس کو کنٹرول کیوں نہیں کر سکی۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی: اس کا دراصل ضروریات سے گہرا تعلق ہے۔ روٹی چاہے جتنی مہنگی ہو جائے آپ ضرور خریدیں گے۔ اسی لئے کھانے پینے کی چیزوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جن کا ہمارا ضرورت سے تعلق نہیں ہے اس کی قیمت نہیں بڑھے گی۔ اگر میرے دسترخوان پر پھل ہیں تو میں ان میں کچھ پھل کم کر دوں گا۔ یہی حال دیگر اشیاء کا ہے جو ہمارے لئے کم اہم ہے ہم اس کی خریداری بند کر دیں گے۔
جنگ: میرا سوال تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے ہم گندم خودکفیل ہیں، چاول میں چینی میں خود کفیل ہیں ان کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے۔؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی: گندم کا بحران تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ 1997ء دوسری مرتبہ 2008ء میں تیسری مرتبہ اب تینوں مرتبہ یہ اسی مدت میں آیا ہے۔ یعنی جنوری، فروری میں 1997ء میں ہم دو ملین ٹن درآمد کرتے تھے۔ ایل سی ہم نومبر میں کھولتے تھے۔ جنوری میں جہاز بندرگاہ پر لگتا تھا۔ مارچ، اپریل میں نئی فصل آنا شروع ہو جاتی ہے۔ جنوری سے مارچ کے دوران درآمدی گندم مارکیٹ میں موجود ہوتی تھی۔ اُس وقت جو فنانس ایڈوائزر تھے آئی ایم ایف سے آئے تھے۔
اب تو ہم سارے عہدیدار ہی آئی ایم ایف سے امپورٹ کرتے ہیں۔ ان کو جانا تھا انہوں نے کہا کہ اگر میں ایل سی کھول دیتا ہوں تو زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو جائیں گے۔ دکھانا یہ مقصود تھا کہ دیکھو میں آیا تھا تو یہ ذخائر اتنے تھے اور اب جا رہا ہوں تو یہ اتنے زیادہ ہیں۔ لہٰذا ایل سی کھلی دسمبر کے آخر میں اس طرح جو گندم کا جہاز آنا تھا وہ نہیں آیا۔
جنگ: یہ تو کہتے ہیں کہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔؟
ڈاکٹر قیصر بنگالی: اب موجود ہے لیکن جس طرح 2007ء اور 2008ء میں ہوا۔ 2007ء میں شوکت عزیز وزیراعظم تھے وہ چاہتے کہ دکھایا جائے کہ جی ڈی پی کتنا ہائی ہے ساری وزارتوں پر دبائو تھا کہ سب اپنی پروڈکشن زیادہ دکھائیں ایگری کلچر منسٹری نے گندم کی پیداوار زیادہ بتادی۔ وزیراعظم کو خوش کرنے کے لئے جب ریکارڈ پر زیادہ پیداوار دکھا گئی تو سوچا گیا کہ فاضل پیداوار کو برآمد کر دیا جائے۔ لہٰذا ملک میں گندم کی قلت ہو گئی۔ اس مرتبہ دانستہ طور پر کیا گیا۔ حکومت کو پتا ہی نہیں کہ دایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے اور بایاں ہاتھ کیا کر رہا ہے۔ چیزیں برآمد کر دیں جب قلت کا شور مچا تو کہا ہم درآمد کریں گے تو جس نے برآمد کیا اُس نے بھی منافع کمایا جس نے درآمد کیا اُسے بھی نفع ہوا۔
جنگ: عبدالحسیب خان آپ سے سوال ہے کہ مہنگائی کے ساتھ دوائوں کی قیمتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں۔
عبدالحسیب خان : آپ صرف دوائوں ہی پر فوکس نہ کریں۔
جنگ : نہیں نہیں! ہمارا اصل موضوع تو غربت اور مہنگائی ہی ہے۔
عبدالحسیب خان : اس موضوع پر جو کہا گیا ہے۔ اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ میں بات کروں گا۔حقائق کے حوالے سے یہ سب کیوں ہوا ہم اس مقام پر آگئے ہیں۔ کہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے ورکرز میں سے کتنے فی صد کم کریں۔ میں ایک آدمی کو فارغ کروں گا تو مجھے پتا ہے اس کی فیملی متاثر ہو گی۔ مہنگائی دراصل مصنوعی طریقے سے بڑھتی ہے۔ آپ کا ماشاء اللہ مال دار ملک ہے کیا چیز ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ مصنوعی مہنگائی کم کرنے کے لئے آپ کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ آج غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ مجھے پتا نہیں ہے کہ کل ڈالر کا ریٹ کیا ہو گا۔ اگر مجھے اپنے ورکنگ کیپٹل میں سے سوا تیرہ فی صد مارک اَپ نکالنا پڑے تو میرے کاروبار کا کیا ہو گا۔ میں گھر سے تو مارک اَپ نہیں دوں گا۔
اگر میں مارک اَپ ہی دیتا رہوں گا۔ انڈسٹری کیسے چلے گی۔ اگر انڈسٹری بند ہو گئی تو ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔ نئی انڈسٹری کہاں سے آئے گی۔ ابھی کہا گیا کہ ملک وینٹی لیٹر پر ہے۔ جب کوئی مریض وینٹی لیٹر پر ہوتا ہے تو ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اُسے وینٹی لیٹر سے نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ اگر آپ بیوروکریسی کی بات کرتے ہیں۔ حکومت کی بات کرتے ہیں تو سوری میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ اگر آپ انڈسٹری والوں سے بات نہیں کریں گے اُن لوگوں سے مشاورت کریں گے۔ جنہوں نے کبھی انڈسٹری نہیں چلائی ہو گی اُن کے دوسرے کام ہوں گے تو وہ کیا کر لیں گے۔ معیشت بیٹھ چکی ہے اور مزید بیٹھے گی بڑی بھیانک صورت حال ہو گی تو کیا ہم اس صورت حال سے نکلنے کے لئے بیٹھ نہیں سکتے۔ کوئی راستہ نہیں نکال سکتے۔ فارما انڈسٹری کے حوالے سے مشورہ کون دے گا۔ ظاہر ہے میں ہی دوں گا۔
فارما سیکٹر میں پانچ سو کمپنیاں ہیں، ہماری اپنی ایسوسی ایشن ہے۔ ان کو بلالیں، ہیلتھ منسٹر کو بلا لیں۔ فیصلہ کر لیں۔ فیڈریشن میں مجھے چالیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں فیڈریشن کے وفود جاتے ہیں۔ فوٹو سیشن بھی ہوتا ہے۔ منسٹر صاحب آتے ہیں آج تک کسی میٹنگ کے منٹس ریکارڈ نہیں ہوئے۔ ابھی ہم پندرہ آدمی لے کر گئے تھے۔ اسلام آباد میں ، بات چیت ہوئی۔ یہ ہو سکتا ہے، یہ نہیں ہو سکتا، وغیرہ وغیرہ دوچار باتوں پر اتفاق ہوا۔ میٹنگ ختم ہوئی چائے کا دور چلا۔ ساری بات چیت چھے گھنٹوں پر محیط تھی لیکن اس کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا گیا کہ اتنے عرصے میں کس نے کیا کیا ہے۔ اگر منٹس کی کاپی فیڈریشن میں آجاتی تو ہم اس پر مزید غورو خوص کرنے کے قابل ہوتے۔ تو جناب حالات خراب تو ہو سکتے ہیں، بہتر نہیں ہو سکتے۔
جنگ: آرمی چیف قمر جاوید باوجوہ صاحب نے بھی ایک میٹنگ بلائی تھی آپ لوگ بھی گئے تھے؟
عبدالحسیب خان: میں بھی گیا تھا، لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی: اس میٹنگ کا مقصد یہ تھا کہ سارے صنعت کاروں سے کہا جائے کہ چپ ہو کر بیٹھو۔
عبدالحسیب خان: اُن کا کہنا تھا کہ آپ کرتے کیا ہو۔ بات یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ بلایا تھا تو صرف ہمیں سنانے کے لئے بلایا تھا۔
بیوروکریسی یا حکومت انڈسٹری کو بند نہیں کر سکتی، ریونیو نہیں بڑھا سکتی۔ ہم اگر وینٹی لیٹر پر ہیں تو ہمیں خود اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔ آمدن کے مطابق اخراجات کرنے ہوں گے۔ ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ کتوں کی خوراک باہر سے آرہی ہے انہیں نہلانے کے شیمپو درآمد ہو رہے ہیں۔ سبزیاں اور پھل بھی باہر سے آرہے ہیں۔
جنگ: پالیسی درست نہیں ہے۔
عبدالحسیب خان : آپ کو بیٹھ کر پالیسی درست کرنا ہو گی۔ پانچ سال قبل جب میں سینیٹ کا رکن تھا۔ اکنامک ایڈوائزری کمیٹی میں گیا تھا۔ اس کے پچاس کے قریب ارکان تھے جن میں سے ایک کا بھی تعلق کراچی سے نہیں تھا جب کہ ریونیو میں کراچی کا ساٹھ سے ستر فی صد حصہ ہے۔ میں پہلے روز ہی کھڑا ہو گیا کہ آپ نے یہ کیا مذاق بنایا ہوا ہے۔
جنگ: ہم اب فورم کو اوپن کرتے ہیں اگر آپ سوال کرنا چاہتے ہیں تو اپنا نام بتائیں پھر سوال کریں۔
واحد فاروقی: میں سمجھتا ہوں کہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اشیاء پر ان کی سیل پرائز لکھ دیں۔ میں ایک چیز لینے گیا دکان دار نے اس کی قیمت اٹھارہ سو روپے بتائی۔ آپ یقین کریں کہ وہی چیز اس نے مجھے نو سو روپے میں دے دی۔ کوئی بارہ سو میں دے گا۔ کوئی تیرہ سو میں دے گا اگر حکومت صرف اسی پر کام کرے کہ اشیاء کی قیمتیں درج کی جائیں تو مصنوعی مہنگائی نہیں ہو گی۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی: مہنگائی اس طرح کنٹرول نہیں ہو گی آپ بے شک لکھ دیں اس وقت ڈیمانڈ سائیڈ سے افراط ِ زر نہیں ہے۔ جب منڈی میں اشیاء کم ہوں گی تو قیمت خود بخود بڑھے گی۔ رمضان میں چیزوں کی قیمت اس لئے نہیں بڑھتی کہ دکان دار بے ایمان ہے۔ بلکہ رمضان میں ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔ سپلائی نہیں ہوتی، رمضان میں مہنگائی کنٹرول کا طریقہ یہ ہے کہ جن چیزوں کی رمضان میں ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے رمضان سے قبل ان کی سپلائی کو بہتر بنایا جائے۔
رحیم الدین: مہنگائی کا ایک اہم سبب یہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں قیمتوں کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں ہے۔
جنگ: یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سسٹم نہیں ہے اگر مانیٹرنگ ہو تو تھوڑا بہت فرق آئے گا۔ یہ درست ہے کہ نظام کی خرابی سے بہت سے لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔