• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گورنمنٹ لائبریری میرپور خاص کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ نوجوان بھی ہیں، بزرگ بھی خواتین بھی۔ سندھ کے 18سے 28سال کے نوجوانوں کے درمیان مضمون نویسی کے مقابلے میں پوزیشن لینے والے خوش نصیبوں کو نقد انعامات دیے جائیں گے۔ موضوع ہے ’’پاکستان کو کامیاب ملک بنانے میں آپ کا علاقہ کیا کردار ادا کر سکتا ہے‘‘۔ کیا کیا معدنیات ہیں، فصلیں کون کون سی ہیں۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے وزیر، ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ سندھ کے ہر ضلع سے ہی مضامین آئے ہیں۔ گورنمنٹ گرلز کالج عمر کوٹ اور گورنمنٹ سرسیّد گرلز کالج کراچی سے سب سے زیادہ حصّہ لیا گیا ہے۔ پیر آفتاب شاہ جیلانی سابق وفاقی وزیر، سید خادم علی شاہ سابق رکن قومی اسمبلی، سید ذوالفقار علی شاہ رکنِ سندھ اسمبلی، آفتاب میمن سابق سیکرٹری حکومت سندھ، شیر محمد وسان رکن سندھ بار کونسل، قرۃ العین پرنسپل عمر کوٹ گرلز کالج، کامران شیخ چیئرمین میونسپل کمیٹی، شیر محمد وسان ایڈووکیٹ، نجی بینک کے محمد عابد، سب موضوع کے حوالے سے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ میرپور خاص کی ترقی مرکزی مسئلہ ہے۔ شکریہ ادا کیا جا رہا ہے کہ ہم نے میرپور خاص کو تقریبِ تقسیمِ انعامات کے لیے منتخب کیا۔ گل منیر جروار لائبریرین بتا رہے ہیں کہ یہاں 25ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں۔ میرپور خاص کے نوجوانوں کی بڑی تعداد لائبریری میں مطالعے کے لیے آتی ہے۔ پہلا انعام عمر کوٹ کی ربیعہ نفیس، دوسرا انعام یمنیٰ اختر کراچی سے، تیسرا انعام میرپور خاص سے احمد طلحہ نے حاصل کیا۔ چوتھی پوزیشن غلام علی سیہون شریف، پانچویں ثمینہ بیرم عمر کوٹ، چھٹی فہد جمال سندھڑی، ساتویں ثانیہ ذوالفقار رائو کراچی، آٹھویں اریبہ شہزاد کراچی، نویں ممتا کماری عمر کوٹ، دسویں تسلیم زہرہ ٹنڈو آدم، سب کے چہروں پر مسکراہٹیں اور طمانیت ہے۔

میرپور خاص میں سید خادم علی شاہ کی پُرتکلف میزبانی کے بعد ہمارا قصد مٹھی شہر کا ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں ایک بالکل ہی مختلف تجربہ کرنے جا رہا ہوں۔ ہمیں حاجی محمد یونس قائم خانی لے کر جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے ایک پہاڑی گڈی بھٹ پارک پر، مٹھی کی روشنیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ عجب مبہوت کرنے والا نظارہ، یہاں سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش ملانی ہیں۔ بچوں کے امراض کے خصوصی معالج، وہ اسلام آباد جا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں سوشیل ملانی کے سپرد کر رہے ہیں جو اس شہر عجائب میں ہمیں گھمائیں گے۔ یہ تو حاجی یونس نے بھی بتایا ہے کہ مٹھی میں جرائم کی شرح صفر ہے۔ سُشیل بتا رہے ہیں کہ یہاں مکانوں کو کوئی تالا نہیں لگاتا۔ آبادی شہر کی 25ہزار سے کچھ زیادہ۔ آس پاس کے دیہات ملا کر لاکھ تک ہو جاتی ہے۔ یہاں ہندو برادری کی اکثریت ہے، 60فیصد سے زیادہ، ڈاکٹر مہیش نے عام الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ کنور امر ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر رجیش کچوریہ فخریہ بتا رہے ہیں کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے جب تھر سے الیکشن لڑا تو مٹھی میں انہیں شکست ہوئی تھی۔ شہر کے سب سے بارونق چوراہے کو کشمیر چوک کا نام دیا گیا ہے۔ 5فروری کو کشمیر سے یکجہتی کے اظہار کے لیے شہر بالکل بند رہتا ہے۔ ریلیاں نکلتی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے سے ہی یہاں تعلیم کی شرح بلند رہی ہے۔ ایک ہائی اسکول 1902سے علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ یہ مرلی دھر کرشنا ٹیمپل ہے۔ گیتا سے سبق سنایا جا رہا ہے۔ بہت صاف ستھرا۔ ہندو مسلمان مل کر خیال رکھتے ہیں۔ مندر کے آس پاس مسلمانوں کے بھی گھر ہیں۔ یہ شری کشن مندر ہے۔ 25فروری کو یہاں ہندو مسلمانوں نے مل کر کھانا کھایا۔ ہر مندر کے پاس سینکڑوں مہمانوں کے لیے کھانے کے برتن۔ چادریں وغیرہ اپنی ہوتی ہیں۔ یہ مندر کافی اونچائی پر ہے۔ بھگت ہرداس۔ یہاں میلہ بھی لگتا ہے۔ شیو مندر۔ مہاراج محلے میں ہے۔ 1965کی جنگ ہوئی پھر 1971کی۔ یہاں سے کوئی بھارت نہیں گیا۔ اب ہم امام بارگاہ شعب ابو طالب میں ہیں۔ یہاں کے نگہبان بتا رہے ہیں کہ محرم کی دس روز مجالس۔ ماتمی جلوس۔ ہندو مسلمان سب مل کر اہتمام کرتے ہیں۔ نذر نیاز ہندو برادری کرتی ہے۔ شیعہ سُنّی کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ کئی درگاہوں کے متولی ہندو ہیں۔

اب ہم مٹھی کی جامع مسجد میں ہیں۔ امام صاحب کہہ رہے ہیں الحمدللہ پانچ وقت نماز باجماعت ہوتی ہے۔ مسجد کے متولی حاجی محمد دل ہیں۔ جو شاعر بھی ہیں۔ ڈرامہ نویس بھی۔ کھلے مقامات میں ڈرامے اسٹیج کرتے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے بھجن مندروں میں گائے جاتے ہیں۔ ایک اور بلال مسجد ہے۔ مدرسے بھی ہیں۔ شہر میں گھومتے ہر بازار چوک میں ہم نے بڑی تعداد میں گائیں چہل قدمی کرتے دیکھیں۔ سب ان کا احترام کرتے ہیں۔

11اگست 1947کو قائداعظم نے کہا تھا ’’اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری بھی‘‘۔ سارے حکمراں قائداعظم کا معاشرہ تشکیل کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ سب یہ بھی کہتے ہیں کہ قائداعظم کا پاکستان کہیں نہیں ہے۔ لیکن آج مٹھی میں ہندو مسلم بھائی چارے کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ میں نے قائداعظم کا پاکستان دیکھ لیا۔ مسلمان ہندوئوں سے یکجہتی کے لیے گائے کا ذبیحہ نہیں کرتے۔ ہندو رمضان میں مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے نہ بعد میں ہندوئوں مسلمانوں کے درمیان کبھی کوئی تنازع نہیں ہوا ہے۔ میں حیرتوں میں ڈوبا ہوا ہوں۔ آج جب پورے جنوبی ایشیا میں نفرتوں اور کشیدگی کا بازار گرم ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ گھر جلائے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کی بےحرمتی کی جا رہی ہے۔ عین اس دَور میں مٹھی محبت، یگانگت، ایک دوسرے کے احترام، انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی مثال پیش کرتا ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ مٹھی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دلّی تو ایک شہر ’’تھا‘‘ عالم میں انتخاب مگر مٹھی تو ایک شہر ’’ہے‘‘ عالم میں انتخاب۔

تازہ ترین