کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان امن عمل میں مشکلات پہلے بھی تھیں اب بھی ہیں،سینئر صحافی و ماہر افغان امور سمیع اللہ یوسف زئی نے کہا کہ اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کر کے امریکا کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے،سینئر صحافی دی نیوز مہتاب حیدر نے کہا کہ ہارون اختر کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ چیئرمین ایف بی آر بننے کیلئے تیار نہیں ہیں،سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ حکومت نواز شریف کی صحت کے معاملہ پر ن لیگ کو الجھانے میں کامیاب رہی ہے، ن لیگ اپنے قائد کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق دفاعی جنگ لڑتی نظر آرہی ہے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ افغان امن عمل میں مشکلا ت پہلے بھی تھیں اب بھی ہیں، تمام تر مشکلات کے باوجود افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے پرامید ہوں، افغان امن عمل آگے بڑھے گا کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، افغان مسئلے کا سیاسی حل دنیا تسلیم کرچکی اور افغان عوام بھی متفق دکھائی دیتے ہیں، امریکا اور افغانستان میں بالعموم سوچ یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعہ سیاسی بندوبست کی طرف آگے بڑھنا معقول راستہ ہے، اس عمل میں تعطل دکھائی دے رہا تھا لیکن اب کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہماری تجویز تھی کہ افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلاء ذمہ دارانہ ہونا چاہئے، معاہدے کے مطابق افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلاء ساڑھے چودہ مہینے میں مکمل ہوگا، پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں صورتحال مزید خراب ہو، امریکا طالبان معاہدہ کی سیکیورٹی کونسل سے توثیق کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سیکیورٹی کونسل نے طالبان امریکا معاہدہ کی توثیق کردی تو اسے بین الاقوامی تائید مل جائے گی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے، افغانستان کی خودمختاری کا مکمل احترام کرتے ہیں، امن کیلئے بنتے سازگار ماحول کو آگے بڑھانا افغانوں کی آزمائش ہے، ہماری خواہش ہے کہ افغان امن کیلئے اس موقع کو ضائع نہ کریں۔سینئر صحافی و ماہر افغان امور سمیع اللہ یوسف زئی نے کہا کہ اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کر کے امریکا کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے، ڈر ہے کہ اشرف غنی اس حدتک نہ چلے جائیں کہ صورتحال مزید گمبھیر ہوجائے، اشرف غنی سمجھتے ہیں کہ طالبان امریکا معاہدے سے کہیں افغانستان میں انسانی ترقی کیلئے ہونے والی پیشرفت واپس نہ ہوجائے، طالبان سیاسی طو پر بالغ نظرنہیں ہیں خطرہ ہے کہ وہ امن کیلئے اتنا اچھا موقع ضائع نہ کردیں، افغانستان میں ماضی کی تاریخ دوبارہ دہرائے جانے کا اندیشہ ہے، طالبان چاہتے ہیں کہ افغانستان کے تیس ملین لوگ تیس ہزار طالبان کی طرح زندگی گزاریں،اشرف غنی ضد پر آگئے تو اپنے ساتھ افغانستان کو بھی داؤ پر لگاسکتے ہیں، معاہدے میں کافی چیزیں مبہم ہیں اس لئے ابتداء میں ہی غلط فہمیاں شروع ہوگئی ہیں۔سینئر صحافی دی نیوز مہتاب حیدر نے کہا کہ حماد اظہر کو وزیر ریونیو بنایا گیا تو اس وقت بھی حفیظ شیخ نے اعتراض کیا تھا، ہارون اختر کو اگر چیئرمین ایف بی آر لگادیا جائے تو شاید حفیظ شیخ کو اعتراض نہ ہو، ہارون اختر کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ چیئرمین ایف بی آر بننے کیلئے تیار نہیں ہیں، اگر انہیں وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے ریونیو لگایا جاتا ہے تو وہ قبول کرلیں گے، ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے کیلئے ایف بی آر کو اگلے چار ماہ میں روزانہ 21ارب روپے وصول کرنا پڑیں گے، ذرائع کے مطابق ٹیکس وصولی کا پہلے سے نظرثانی شدہ ٹارگٹ پر نظرثانی کیلئے آئی ایم ایف سے بات کی جارہی ہے، ڈاکٹر عشرت حسین کی اصلاحات میں ایف بی آر کو خودمختار باڈی بنانا تھا جس پر ایف بی آر کے اندر سے مزاحمت آرہی تھی، ٹیکس شارٹ فال کی وجہ سے ہی پٹرولیم لیوی میں اضافہ کیا گیا ہے۔سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ حکومت نواز شریف کی صحت کے معاملہ پر ن لیگ کو الجھانے میں کامیاب رہی ہے، ن لیگ اپنے قائد کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق دفاعی جنگ لڑتی نظر آرہی ہے، حکومت اپنی زندگی اپوزیشن پر اٹیک کرنے میں ہی سمجھتی ہے، حکومتی ذمہ داران سمجھتے ہیں کہ جتنی کہانیاں بنانی پڑیں اپوزیشن پر یلغار جاری رہنی چاہئے، معاشی اور خارجی محاذ پر اچھی خبروں سے حکومت کے قدم مضبوط ہوئے ہیں،عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے بھی حکومت کو معاشی ریلیف ملا ہے، افغان امن معاہدے سے عمران خان کو شخصی طور پر فائدہ پہنچا ہے، پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے معاملات میں الجھی ہوئی ہے، آصف زرداری کو ریلیف ملنا ان کی بڑی جیت ہے، مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ سے اپوزیشن کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا کنڈکٹ دیکھیں تو اپوزیشن کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔