• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی آئین کا آرٹیکل 219۔ڈی ، صرف دو سطری ہے لیکن اس میں ملکی نظام کے تین خاکے مو جود ہیں ۔ پہلا سینیٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل وفاقی پارلیمینٹ کے انتخابات ۔ دوسرا وفاق کے صوبائی یونٹوں میں الیکشن اور تیسرا مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے رائے شماری ۔ دستوری طور پر وفاقی اور صوبائی سطح کے انتخابات کا مقصد قانون ساز اور آئین ساز پارلیمان تشکیل دینا ہے جو ملک میں آئین کی بالا دستی ، رول آف لا اور ریاستی اختیار کی مثلث کے درمیان قابل عمل ادارے اور ڈھانچہ ترتیب دے تاکہ کوئی زورآور فریق، اندھی طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر نہ چڑھ دوڑے۔ پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں ہمیشہ جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، موقع پرستوں اور اقتدار پرست ٹولوں کی غالب اکثریت کا قبضہ رہا ہے۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے صرف 1970ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ قوم نے مڈل کلاس کے امیدواروں کی ایک بڑی کھیپ کو اقتدار کے ایوانوں میں بھجوایا پھر گیارہ سالہ آمریت نے ظلم کی نرسریوں میں جاہ پرستی، فرقہ پرستی، علاقہ پرستی اور لسان پرستی کے گملے تیار کئے اور وطن ِ عزیز کو غربت اور امارت کے ایسے جزیروں میں تقسیم کر دیا جہاں ایک طرف ظلم کوچہ و بازار میں بچے جَن رہا ہے، دوسری طرف سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والوں پر اُولے نہیں پڑتے بلکہ موتی اور ہیرے برستے ہیں۔
پاکستان کی ساری اسمبلیاں دو ہزار لوگوں کا ایک ایسا کلب ہیں جس میں دادا کے بعد پو تا،بہنوئی کے بعد سالا اور سسر کے بعد داماد ہی آتے ہیں۔ اپنی طرز کی اس انوکھی حکومت نے ایک طرف ذہنوں میں بنیاد پرستی ،دوسری طرف ایوانوں میں مفاد پرستی اور تیسری جانب سرکاری عہدوں میں داماد پرستی کی بنیاد رکھی ۔ اس لئے آج یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی خانوادہ ایسا ہو جس کا کوئی نہ کوئی پہلے نمبر کا رشتہ دار محکمہ مال، پو لیس یا صوبائی اور مرکزی بیوروکریسی میں آفیسر رینک میں بھرتی نہ ہوا ہو۔ پینسٹھ سالہ پارلیمانی اشرافیہ کی تعداد محض بیس سو ہے اور وہ بار ی باری کے زریں جمہوری اصول کے نتیجے میں اختیار کو اپنے درمیان پنگ پانگ کی طرح اچھال کر اسے تبدیلی کا نام دیتی ہے۔ پاکستانی ریاست کے اندر شاہی حسب نسب رکھنے والے ملازمین کی رگوں میں ان کے رشتوں ، ناتوں، تعلقات اور مفادات کا لہو دوڑتا ہے ۔ آج پاکستان میں عملی طور پر نہ کوئی مڈل کلاس ہے اور نہ کوئی ورکنگ کلاس۔ ہم ایک ایسا معاشرہ بن گئے ہیں جہاں کی معاشی و معاشرتی تقسیم رولنگ کلاس اور ورکنگ کلاس میں تبدیل ہو چکی ہے ۔اس لئے کراچی جیسا وہ شہر جہاں پینسٹھ سال پہلے ٹرام چلا کرتی تھی اب وہاں سڑکوں پر پرانے ماڈل کی منی بسیں رینگ رہی ہیں۔ پاکستان میں ہزاروں میل ریل کی پٹڑی اور لاکھوں کنال ریلوے کی زمین ہوا میں اڑ گئی ہے۔ لطف کی بات کہیں یا ستم کی بات کہ پٹڑیاں نہ توریلوے کا مزدور کھا سکتا ہے اور نہ ٹرام سندھ کا ہاری۔ پاکستان کے دستوری نظام حکومت کے اس حصے کو ایک طرح سے چوبارے کی گورننس کہا جا سکتا ہے ۔ جس پر چڑھنے والے معززین علاقہ اوپر چڑھتے ہی سیڑھی بھی ساتھ ہی اوپر کھینچ لیتے ہیں لہٰذا غریب تو درکنار اس چوبارے پر پہنچنے کیلئے لوئر مڈل کلاس، مڈل کلاس اور اَپر مڈل کلاس کیلئے نہ کو ئی راستہ ہے اور نہ ہی کوئی زینہ موجود ۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس پارلیمانی نظام کے ڈیزائنر نے اس گنبد ِ بے در میں نچلے طبقات کیلئے جان بوجھ کر کوئی ہوا دان تک نہیں رکھا۔ پارلیمانی نظام آئینی تقاضہ ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ ہمارا پارلیمانی نظام ، پارلیمانی امور کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے ۔ پاکستان میں آئین سازی اور قانون سازی سے کتنے پارلیمنٹیرین واقف ہیں یا اس سے دلچسپی رکھتے ہیں؟ اس صدی کے میڈیا بلاسٹ کے بعد یہ بات کوئی راز نہیں رہی۔ آپ نے اخباری رپورٹوں اور جھلکیوں کیساتھ ساتھ ٹیلی وژن کی تصویری کوریج میں درجنوں بار دیکھا ہو گا کہ پالیمینٹ کے اجلاس کے بیچوں بیچ کس طرح لائن لگا کر ارکان اسمبلی، وزیراعظم اور منافع بخش وزارتوں کے انچارج وزیروں سے درخواستوں کے بنڈلوں پر دستخط کراتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ پاکستان میں ریاستی عملداری کی سب سے موثر مگر تیسری ٹانگ یعنی لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو توڑ دیا گیا ہے۔
وہ پارلیمنٹیرین جو نالیوں کے ٹھیکے ، سڑکوں کے ٹینڈر ، بھل صفائی کی اسکیمیں، بجلی کے کھمبے اور پختہ کھالے بنانے میں لگ جائیں۔ جہاں کون نہیں جانتا کہ موبلائزیشن ایڈوانس کے ساتھ ہی ترقیاتی فنڈ کے کیک کو کاٹ کاٹ کر پیسٹریوں اور بسکٹوں میں تقسیم کر دیا جاتاہے تو پھر ان کی جگہ پارلیمانی بزنس کون کرے گا؟ اس لئے اس تیسری ٹانگ کی عدم موجودگی میں نظام لنگڑاتا ہے، لڑکھڑاتا ہے، سسکتا ہے یا کراہتا ہے تو اس کا کھلا سبب اس آئینی تقاضے پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 32 کے مطابق واضح طور پر لو کل گورنمنٹ کے اداروں کے قیام کو ریاست کے رہنما اصولوں میں شامل رکھا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں مقامی حکومتوں کے الیکشن کرائے بغیر کوئی جمہوری نظام بن ہی نہیں سکتا۔ اس لئے یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ جس جمہوریت نے گزشتہ رات پانچ سال مکمل کئے ہیں اس کا ایک آئینی پلر ٹوٹا ہو انہیں بلکہ سرے سے ہی غائب تھا۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کی عوامی اہمیت دو حوالوں سے جانچی جا سکتی ہے ۔ ایک یہ کہ اس میں مقامی یا گلی محلے کی لیڈر شپ منتخب ہوتی ہے جس کا اٹھنا بیٹھنا عوامی سطح پر ہوتا ہے۔ دوسرا، یہ کہ اس میں پاکستان کی اقلیتوں، ہاریوں،کسانوں ، ورکنگ کلاس یعنی مزدوروں اور خواتین کو انتخابات کے امتحان میں ڈالے بغیر آئینی طور پر نامزدگی مل جاتی ہے ۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جس پارلیمانی جمہوریت کے ڈنکے بجائے جا رہے ہیں اس میں اس کی پارلیمانی بزنس کے بعد دوسری گمشدہ کڑی کا نام عام آدمی ہے ۔ آپ عنوان دیکھ کر چونکے ہوں گے ۔ میں نے 'ع' والے عام کی بجائے 'آ' والا آم کیوں چُنا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار کے موقع پر غریبوں کو آم سمجھ کر ان کی رگوں سے خون نکالا جاتاہے جبکہ چوسے جانے کے بعد بھی اس کی گٹھلی نما پنجر کو پھینکا نہیں جاتا، اسے نئے الیکشن کے ووٹ کی امید میں منوں مٹی تلے زندہ دفنا دیا جاتا ہے۔آج کل گڑے مردے اکھاڑنے کا سیزن ہے۔ اس لئے جن کو اقتدار ملنے کی امید ہے وہ خونخوار ایس ایچ او، بے رحم پٹواری اور رشتہ دار ڈی پی او ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ اپنے مخالفین کی وہ فہرستیں جن کو سبق سکھانے کیلئے منتخب کیا گیا ہے ان پر پوری دیانتداری سے عملدرآمد کیا جا سکے ۔ قوم نے خواص کی رولنگ ایلیٹ کی پانچ عدد حکومتوں کے پانچ سالہ شو کی پرائم قسط گزشتہ رات دیکھی۔ جس میں دکاندارانہ جوڑ توڑ، کچھ لو کچھ دو۔ اصولی موٴقف اور وصولی موٴقف کے جاندار مناظر شامل تھے۔ جانے والوں کے ”عظیم اجتماع“ نے نہ پاکستان کانام لیا نہ اس کے غریبوں کا، نہ ہی مسئلہ کشمیر جیسی بھولی بسری داستان کا۔ حالانکہ چوٹی کے اس اجلاس سے محض چوبیس گھنٹے پہلے ہندوستان میں ہماری خودمختار پارلیمان اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی نفی کر کے ایک نام نہاد قرار داد پاس کی گئی مگر اصولی اور وصولی سیاست کے اس بدلتے موسم میں بھی پختہ کار پنساریوں نے نہ اپنی ریٹ لسٹ بدلی اور نہ ہی اپنا پینترہ تبدیل کیا۔ اس وقت جو جنس سیاسی منظر نامے پر چھائی ہوئی ہے وہ صادق ، امین اور با ضمیر لوٹا گروپ ہے جو ہر جانے والے کو ”دُر فٹے منہ“اور ہر آنے والے کو شاد باد منزل مراد کہتے ہیں۔ وصولی گروپ کے ان قافلہ سالاروں کے اصل چہرے سے عامر میر نے اپنی تازہ اسٹوری میں سرخی پاوٴڈر اتارا ہے۔ شہر اقتدار اسلام آباد سے پرانے گِدھ خاموشی کے ساتھ اڑ چکے ہیں جبکہ نئے شکرے اسی شہر کی اونچی فصیلوں پر بیٹھے ملک کی لاغر اور ضعیف معیشت کی ان رگوں پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں جو ابھی تک پھڑک رہی ہیں ۔آئندہ الیکشن میں”آم آدمی“ کی فتح کا صرف ایک راستہ ہے ۔ یہ راستہ ان چار کروڑ ووٹروں کے گھر سے نکلتا ہے جو پہلی بار ووٹ ڈالیں گے ۔وہ چاہیں تو بُرج گرا سکتے ہیں ۔ وہ فیصلہ کر لیں تو تبدیلی آسکتی ہے مگر تبدیلی کا دروازہ کھولنے کے لئے الیکشن ریفری اور عبوری حکومت کو پارلیمینٹ کے ارکان کیلئے رولز آف گیم کا فوری اعلان کرنا ہو گااور کھل کر کہنا ہو گا کہ ارکان پارلیمینٹ نالیوں ،ٹھیکوں کی سیاست نہیں کر سکتے بلکہ وہ قانون اور آئین بنانے تک محدود رہیں گے۔ اس کا دوسرا راستہ بڑی جاگیریں اور بڑے مافیاز پر ہاتھ ڈالے بغیر نہیں کھل سکتا ۔بقول حبیب جالب
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لُٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الٰہ الا اللہ
تازہ ترین