• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑھاپا شباب پر ہونے کے باوجود ہماری مطالعاتی آوارہ گردی کی وراثتی سرگرمیاں اب بھی عروج پر ہیں۔ نگر نگر کی سیّاحت کے بعد اس بار ہم نے بحرِاوقیانوس کے مُلک، انڈونیشیا کے تفریحی جزیرے’’ بالی‘‘ کے سفر کا قصد کیا، جس کے بارے میں سُن رکھا تھا کہ یہ دل فریب جزیرہ سطحِ زمین ہی نہیں، زیرِآب بھی اس قدر دل کش ہے کہ اس کی خُوب صُورتی اور قدرت کی صنّاعی دیکھ کر سیّاح مبہوت رہ جاتے ہیں۔

ہم اپنی اکلوتی زوجہ محترمہ کے ساتھ جزیرئہ بالی کے ڈنپسار (Denpasar) ائرپورٹ پر اترے، تو امیگریشن اور حصولِ سامان کے مراحل مسکراہٹوں کی تبدیلی کے ساتھ جلد ہی مکمل ہوگئے۔ امیگریشن ہال سے نکلے، تو سیّاحتی رہبر (ٹورسٹ گائیڈ) محمد عثمان، بالی کے روایتی لباس میں ملبوس منتظر تھے۔ ان کے ساتھ ہی سیّاحتی کمپنی کی دو خواتین بھی کھڑی تھیں، جنہوں نے ہمیں مشرقِ بعید کے روایتی پھول پیش کیے۔ چند رسمی کلمات کے بعد انہوں نے سامنے کھڑی کوسٹر کی طرف اشارہ کیا، تو پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے ساتھ ٹھنڈی ٹھار کوسٹر میں سوار ہوکر بالی کے جنوب میں واقع KUTA نامی شہر کی طرف روانہ ہوگئے، جہاں ایک ہوٹل میں پہلے سے ہمارا کمرا بُک تھا۔

انڈونیشیا، جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ایک اسلامی ملک ہے،جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1750جزائر پر مشتمل جنوب مشرقی ایشیا کےان جزائر میں اکثر جزائر غیر آباد ہیں۔ 27کروڑ نفوس کا یہ ملک دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے، جس میں مسلمان آبادی کا 88 فی صد ہیں، جب کہ عیسائی، بدھ اور ہندو مت کے ماننے والوں کی بھی کثیر تعداد یہاں آباد ہے، جس کی وجہ سے ملک سیکولر کہلاتا ہے۔ سرکاری زبان انڈونیشی ہے، جب کہ ملائی بھی یہاں کی مقبول زبان ہے۔دنیا کی جتنی زبانیں، تہذیبیں انڈونیشیا میں یک جا نظر آتی ہیں، شاید ہی دنیا میں کہیں ایسا ہے، یہاں کے لوگ نرم اور ٹھنڈے دماغ کے ہیں، یعنی سر پر برف رکھے رہتے ہیں، یہاں سات سو زبانیں بولی جاتی ہیں، ثقافت پر ہندو اور چینی اثرات واضح ہیں۔ چینی نسل کے افراد دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح یہاں کی کرنسی بھی روپیا کہلاتی ہے اور 37انڈونیشی روپے ایک پاکستانی روپے کے مساوی ہے۔ معیشت کا انحصار 47فی صد زرعی کاشت پر ہے، جن میں ربڑ، کوکا، چائے، کافی، گنّا، تمباکو اور چاول وغیرہ شامل ہیں۔ معدنیات میں ٹن(TIN)، تانبا، تیل شامل ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ آتش فشاں بھی اس ملک میں ہیں، لیکن زیادہ تر کئی صدیوں سے خاموش ہیں۔ 1883ء میں انڈونیشیا کے جزیرہ PAPUA میں آتش فشاں کے پھٹنے سے لگ بھگ 36500 نفوس ہلاک ہوئے، جب کہ اس کے نتیجے میں اٹھنے والے خوف ناک طوفان سے دنیا کے دیگرکئی ممالک بھی متاثر ہوئے۔

بالی میں ہمارا عارضی قیام ساحل کے کنارے ہوٹل میں تھا، جہاں سوائے چند پاکستانیوں کے باقی تمام افراد گورے تھے۔ اس ہوٹل میں حلال کھانے کا خاص بندوبست تھا۔ رات کا کھانا قریب ہی ایک عربی ریسٹورنٹ میں کھانے کے بعد چہل قدمی کے لیے پیدل ہی چل پڑے۔ قریب ہی ایک مخصوص کیکڑا ریسٹورنٹ ہے۔ اس اسٹریٹ ریسٹورنٹ کے باہر رکھی نشستوں پر گورے سیّاح مرد و زن پُرکیف حالت میں موسیقی پر تھرتھرا رہے تھے۔ یہاں سے جلد ہی ہوٹل کی راہ لی، کیوں کہ صبح چھے بجے کشتی کی مہم جوئی کے لیے روانگی تھی۔ ہم نے پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا کہ ہوٹل سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر بلند پہاڑ کی چوٹی سے جانب زمین تیزی سے دندناتے، شور مچاتے دریا پر RAFTING یعنی بھری کشتی پر مہم جوئی ضرور کرنی ہے۔ سو، حسبِ پروگرام دوسرے روز علی الصباح بالی کے اس اہم ترین سیاحتی مقام کے لیے روانہ ہوگئے۔ سرسبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان ہماری گاڑی پہاڑ کی چوٹی کی طرف رواں دواں تھی۔ راستے میں سیاہی مائل ریت سے بھرے ٹرک سبک رفتاری سے نیچے کی طرف جارہے تھے۔ اسے آتش فشاں ریت (VULCANIC SAND) کہتے ہیں، جو قریبی ’’خاموش آتش فشاں پہاڑ‘‘ سے لائی جارہی تھی۔ یہ قیمتی ریت مضبوط تعمیرات میں استعمال کی جاتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے، تو نقطہ آغاز پر RAFTING COMPANYکے اہل کاروں نے پُرجوش استقبال کیا۔ بعدازاں، ایک تجربہ کار گائیڈ نے سامانِ سفر کے لوازمات حوالے کیے، جوکہ لائف جیکٹ، کشتی کے چپّو اور ایک عدد واٹر پروف بیگ پر مشتمل تھا۔ بیگ میں ہم نے اپنی قیمتی اشیاء رکھ کر اسے بند کردیا، تاکہ دورانِ مہم جوئی پانی سے ان اشیاء کو نقصان نہ پہنچے۔ یہاں متعیّن اہل کاروں نے ہمیں مختصراً پورے سفر اور اس دوران ممکنہ طورپر پیش آنے والے حالات کے بارے میں تفصیل سے بریف کیا۔ ہرکشتی پر تین سیّاح اور ایک تجربہ کار ملّاح سمیت کُل چار افراد سوار ہوتے ہیں۔ اس دوران ہمیں خصوصی طور پر خبردار کیا گیا کہ دریائی راستہ چوں کہ بہت زیادہ پتھریلا اور چٹانوں پر مشتمل ہے، پانی انتہائی تیز رفتاری سے پہاڑ سے نیچے کی طرف جاتا ہے، جہاں جگہ جگہ آب شار اور گھنے جنگل کا بھی سامنا ہوگا، لہٰذا بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بریفنگ کے دوران بتائی گئی احتیاطی تدابیر کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم دھڑکتے دل کے ساتھ Raftingیعنی کشتی پر مُہم جوئی کے لیے روانہ ہوئے، تو قدرتی طورپر ایک خوف سا طاری تھا، کئی جگہ بانس کے پُل آئے، تو ہم نے تیز رفتار کشتی میں سر نیچے کرلیا، کئی پُلوں کی اونچائی تو اس قدر کم تھی کہ ہمیں لیٹ کر اسے عبور کرنا پڑا۔ تیز بہائو میں کئی جگہ کشتی چٹانوں سے ٹکرائی، مگر ملّاح نے سنبھال لیا، لیکن ایک بار جو ہماری کشتی چٹان سے ٹکرائی، تو الٹ ہی گئی، جس کے نتیجے میں ہم پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے، لیکن ملاح نے کمال ہوشیاری سے کشتی سیدھی کی اور پھر سب برق رفتاری سے چھلانگ لگا کر دوبارہ کشتی پر سوار ہوگئے۔ مہم کا دورانیہ 8 گھنٹے پر محیط تھا۔ تقریباً چار گھنٹے بعد ’’درمیان‘‘ آیا، تو سامنے چھت کی مانند سیاہ پتھر کی قدرتی تراشیدہ چٹان نظر آئی۔ جس کے سامنے ایک بڑی آب شار کا پورے جوش و خروش سے زمیں بوس ہونے کا منظر انتہائی دل کش لگ رہا تھا۔ یہاں سے 13 فٹ اونچائی سے دریا نیچے آرہا تھا اور ہماری کشتی بھی اتنی ہی بلندی سے تیز رفتار پانی کے ساتھ نیچے آرہی تھی اور اِس گرنے کے منظر کو چٹان پر کھڑے فوٹو گرافرز اپنے کیمروں میں قید کررہے تھے۔ اونچی نیچی، آڑی ترچھی چٹانوں اور پانی کے تیز بہائو سے نبرد آزما ہوتے ہوتے بالآخر ہماری مہم جوئی مکمل ہوئی اور ہم کنارے آلگے۔ سامنے انتہائی خُوب صُورت جنگل ہمارا منتظر تھا۔ ہم ایسے مناظر بارہا نیشنل جیو گرافک پر دیکھ چکے تھے۔ تاہم، آج خود اس سے لطف اندوز ہونے کی تو بات ہی الگ تھی۔ قریب ہی ایک پہاڑ بھی تھا، جس پر سیڑھیوں کی شکل میں دھان کے ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان سے ایک پلیٹ فارم سا بنایا گیا تھا۔ جہاں مہم جوئی سے واپس آنے والے افراد کے لیے غسل اور تبدیلی لباس کا معقول بندوبست تھا۔ یہاں سے نکلتے نکلتے شام ڈھلنے لگی تھی، لہٰذا واپس ہوٹل کی راہ لی۔

واپسی پر گائیڈ سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ گائیڈ نے بتایا کہ’’بالی، سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ”قربانی کا جزیرہ“ کے ہیں۔ یہاں خوب صورت سیاہی مائل ریت کے ساحل ہیں، سیاہی مائل اس لیے کہ اس میں آتش فشائی لاوے کی آمیزش ہے، جوکہ وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہے، اس کے علاوہ یہاں میٹھے پانی کے چشمہ جات بھی موجود ہیں، یہ ہندو اکثریتی جزیرہ ہے، مسلمان، عیسائی، بدھسٹ صرف دس فی صد ہیں۔ انڈونیشیا میں عرب تاجروں کے سبب اسلام کا نُور پھیلا۔ بالی کے ہندو، بھارتی ہندوئوں سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستانی ہندوئوں کی طرح یہ امن پسند اور دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں۔ یہ ہندو یہاں کی آبادی کا 83.5 فی صد ہیں،جو خود کو AGAMA HINDU DHARMA کے پیروکارکہتے ہیں۔ عیدالاضحی کےموقعے پر پر پورے جوش و جذبے سے سُنّتِ ابراہیمی ؑادا کی جاتی ہے۔ ہندو، مسلم رواداری کا یہ عالم ہے کہ بالی کے ہندومذہب سے تعلق رکھنے والے افراد پورا سال گائے کے بچھڑے پالتے ہیں، تاکہ عیدالاضحی میں مسلمانوں کے ہاتھ اچھے داموں فروخت کیے جاسکیں۔‘‘ گائیڈنے یہ بھی بتایا کہ ’’یہاں اکثر سیّاح ایک مخصوص بیماری BALI BELLY کے لپیٹ میں آجاتے ہیں۔‘‘ تفصیلات جاننے کے بعد سکون کا سانس لیا کہ ہم اس بیماری کا شکار نہیں ہوسکتے، کیوں کہ یہاں کے مقامی کھانوں کے ساتھ شراب پینے والے ہی اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔

دوسرے روز کا غروبِ آفتاب’’DINNER CRUISE‘‘کے نام تھا۔ اوائل شام یعنی بعدازعصر CRUISE SHIP یعنی بحری جہاز پر پہنچے، تو جہاز کے عملے کی خواتین نے روایتی انڈونیشی لباس میں استقبال کیا اور روایتی پھولوں کی مالا گلے میں ڈال کر پذیرائی کی۔ پھولوں کی مالا پہنانے کے منظرکو جہاز کے فوٹو گرافر نے پُھرتی سے کیمرے میں محفوظ کرلیا، اور بعدازاں اس کا پرنٹ ہمارے حوالے کردیا، تاکہ یادگار رہے۔ چار منزلہ جہاز کے عرشے سے سمندر کی آغوش میں غروبِ آفتاب کا منظر انتہائی دل کش تھا۔ شام مستانی تو تھی، لیکن مدہوش نہ تھی۔ شرعی مشروبات وافر مقدار میں موجودتھے۔ بحرِ اوقیانوس کی پُرسکون گود میں آبی جہاز پریہ آسمانی نظارہ ایک ایسا منظر تھا کہ ذہن میں تا عمر کے لیے محفوظ ہوگیا۔ نیلا آسمان آہستہ آہستہ رنگ بدلنے لگا اور جلد ہی نارنجی رنگ میں تبدیل ہوگیا۔ یہ تبدیلی غروبِ آفتاب کی طرف گام زن تھی۔ آسمان کا رنگ جامنی ہوا، تو سرخی مائل سورج بھی ڈھلنے لگا۔ یہاں طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب بالکل ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ سورج کو رخصت کرکے جہاز کے ڈائننگ ہال کا رُخ کیا، جہاں زندہ موسیقی (Live Music) کے ساتھ شرعی طعام کا بندوبست تھا۔ فرنگی طرزِ موسیقی کی تھاپ پر بہت سے خواتین و حضرات کو تھر تھراتے دیکھ کر ہم بھی کافی محظوظ ہوئے۔ یہاں سے دوبارہ عرشے کا رُخ کیا، تو بحیرئہ اوقیانوس پر تاروں کے جُھرمٹ میں آسمان و سمندر کو یک جا دیکھ کر جیسے ایک سحر سا طاری ہوگیا۔

اگلا روز جزیرے LAMBOGAN کے نام تھا، اسے REEF CRUISE SHIP کہا جاتا ہے۔ وہاں پہنچے، تو جھلسادینے والی گرمی سے یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے دھوپ کی بارش ہورہی ہو۔ ہمیں یہاں پورا دن گزارنا تھا، جہاں کئی آبی کھیل ہمارے منتظر تھے۔ آبی اسکوٹر پر سوار ہوکر سمندر کی سیر کرنا بھی ایک بھرپور تجربہ تھا۔ یہاں پانی اس قدر شفّاف ہے کہ سمندر کی تہہ تک تمام آبی مخلوق اور نباتات صاف نظر آرہے تھے، جیسا کہ ہم خود غوطہ خوری کے لباس میں سمندر کی تہہ پر ہوں۔ قسم قسم کی رنگ برنگی مچھلیوں، مختلف آبی جانوروں، خصوصاً آبی گھوڑے سمیت کیا کیا کچھ نہیں تھا وہاں۔ ایک حفاظتی حصار سمندر کے ایک طرف بنایا گیا ہے، جہاں مشّاق غوطہ خور سیّاحوں کی رہنمائی اور حفاظت کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ SNORKLING یعنی زیرِ آب سمندری زندگی کا قریب سے نظارہ کرتے ہوئے بے اختیار دل بول اٹھا ’’فَباِی آلَاء رَبّكُما تُكَذبَان۔

دوسرے روز وطن روانگی سے قبل جکارتا میں ایک روز کا قیام تھا۔ یہاں مسجد استقلال میں (جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے) نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد ہوٹل پہنچ کر سامان وغیرہ پیک کیا اور جکارتا ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوگئے، جہاں کراچی جانے والی پی آئی اے کی پرواز ہماری منتظر تھی۔

تازہ ترین