• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے نائن الیون کا حادثہ خود برپا کرکے اس کی آڑ میں افغانستان کی خالص اسلامی مملکت کو تہس نہس کر کے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ امریکی جنگجو دانشوروں کا خیال ہوگا کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس بے سروسامان قوم پر باآسانی قابو حاصل کر لیا جائے گا کیونکہ ہمارے پاس جدید ترین فضائی زمینی اور منظم افواج اور ہر طرح کی قوت موجود ہے جبکہ دشمن کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے۔ وہ منتشر چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹا ہوا ہے وہ کس طرح اور کب تک ہمارا مقابلہ کر سکے گا۔ اُن عقل کے اندھوں نے روس جیسی سپر پاور کے حشر کو بھلا دیا اور اپنی طاقت کے زعم میں آ کر افغانستان پر چڑھ دوڑے، اب امریکہ کو 19برس کی طویل مدت تک جھک مارنے اور ہزاروں جانوں کی ہلاکت اربوں کھربوں ڈالروں کے نقصان کے بعد شاید عقل آگئی ہے۔ امریکہ تو کب کا کمبل چھوڑنا چاہتا تھا لیکن افغان کمبل چھوڑ ہی نہیں رہا تھا تب مجبوراً ہی سہی اپنا تھوکا چاٹتے ہی بنی آخر پاکستان کی مدد و معاونت سے طالبان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے۔ پاکستان کی کوششوں سے طالبان کا امریکہ سے امن معاہدہ طے پاگیا۔ اس معاہدے میں مملکت قطر کا بھی بڑا اہم حصہ ہے، اس معاہدے کے مطابق غیرملکی فوجیں 14ماہ میں افغانستان سے واپس چلی جائیں گی اور طالبان کے چھ ہزار قیدی رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے 135دنوں میں آٹھ ہزار چھ سو امریکی فوجی افغانستان سے جائیںگے، پانچ ملٹری بیس خالی کردی جائیں گی۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی کابل کے سیاسی معاملات میں اور ریاستی خودمختاری میں مداخلت نہیں ہوگی، دس مارچ کو پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کئے جائیںگے۔ امریکہ نے جب بھی سمندر پار کسی علاقہ میں عسکری مداخلت کی اُسے ہر جگہ منہ کی کھانا پڑی۔ ویت نام یا عراق، ہر جگہ سے جوتے کھا کے ہی راضی ہوا۔ اپنے تمام معرکوں میں افغانستان امریکہ کے لئے زیادہ اہم اس لئے تھا یا ہے کہ افغان سرحد سے امریکہ کے مضبوط حریف روس اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں یوں اپنے حریفوں کے سر پر سوار ہونے کا موقع مل جاتا۔ ہائے بدنصیبی امریکی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ جدید ترین اسلحہ سے لیس ہر طرح کی جدید تر بیت یافتہ منظم افواج کے مقابلے میں افغانستان کے جاہل، ان پڑھ، غیرتربیت یافتہ، منتشر افغان طالبان کیسے اُن کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن امریکیوں کی تمام فضائی اور زمینی برتری کے باوجود افغان طالبان نے امریکہ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔

اللہ کرے کہ امن معاہدہ بخیرو خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے کیونکہ ابھی طالبان سے معاہدہ ہوئے چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ افغان صدر اشرف غنی نے خطرے کی جھنڈی لہرا دی ان کا کہنا ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات سے قبل پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا اشرف غنی کا کہنا ہے قیدی رہا کرنا امریکہ کا نہیں ہمارا اختیار ہے، ہم نے کوئی وعدہ نہیں کیا ہاں اسے مذاکراتی ایجنڈے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اللہ کی قدرت کہ دنیا کی طاقتور ترین سمجھی جانے والی شخصیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ طالبان قیادت سے ملنے کے خواہش مند ہیں کل تک جن کانام تک سننا پسند نہیں تھا آج اُن سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اللہ جس کو جب چاہتا ہے، عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے

ہاے اُس زودِ پشیماں کاپشیماں ہونا

افغان صدر کے بیان پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان امن عمل کو نقصان پہنچانے والوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ ہم نے اس معاملے میں صرف سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے، اب افغان قیادت کا امتحان شروع ہو گیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے امن معاہدے کی اہم شق کو ماننے سے ہی انکار کردیا ہے۔ اس معاہدے میں اڑچن ڈالنے کا کیا مقصد ہے جبکہ خود اشرف غنی کی حکومت امریکہ کی مرہون منت ہے، ویسے بھی افغان صدر کی حکومت و صدارت تو صدارتی محل تک ہی محدود ہے شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر امریکہ افغانستان سے نکل جاتا ہے تو اُن کی نام نہاد حکمرانی کا کیا ہوگا۔ کیا طالبان انہیں چین سے جینے دیں گے۔ اس لئے افغان صدر طالبان اور امریکی حکام پر اپنا دبائو رکھنا چاہتے ہیں۔ افغان صدر اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ طالبان سے اکیلے نمٹنا اُن کے بس کی بات نہیں ہوگی شاید وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکی حکام پر دبائو ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ اُن کی غیرموجودگی میں وہ اپنی حکومت اور حکمرانی کوطالبان کی مداخلت سے محفوظ کر سکیں لیکن وہ یہ بات بھول رہے ہیں کےطالبان جو بپھرے شیر کی مانند ہیں بڑی مشکل سے امریکہ سے امن معاہدے پر تیار ہوئے ہیں اگر اشرف غنی نے مقررہ مدت کے مطابق طالبان قیدی رہا نہ کئے تو امریکہ کی محنت پر پانی پھر جائے گا اور امریکہ کے لئے باعزت واپسی مشکل ہو جائے گی۔ اس طرح آئندہ بھی کسی امن معاہدے کی کوئی راہ نہیں رہے گی افغان صدر اشرف غنی کے ارادے خطرناک محسوس ہورہے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ امن معاہدے میں چونکہ امریکہ نے بھارت کوشامل نہیں کیا اس لئے ہو سکتاہے کہ اشرف غنی بھارتی دبائو اور قریبی تعلقات کے باعث ایسا کر رہےہوں بھارت کی سوچ ہو کہ اگر طالبان پُرامن ہو گئے تو کبھی نہ کبھی وہ حکومت میں بھی اپناحصہ مانگ سکتے ہیں جو بھارت کو قطعی پسند نہیں ہوگا۔

تازہ ترین