میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طاہر حبیب
عکّاسی: اسرائیل انصاری
تجاوزات کے خلاف کارروائی سے چند سو افراد کا بے شک نقصان ہوا لیکن لاکھوں اور کروڑوں افراد کو فائدہ بھی ہوا،پچاس سال پہلے کے نیو یارک شہر کا ماڈل ہمارے پاس موجود ہے۔
شہر کی ترقی اور یہاں کے کروڑوں افراد کی بہتری کے لیے ہمیں کڑوی گولی نگلنا ہو گی،ہم نے اداروں کو مضبوط بنانے پر بھی تو توجہ نہیں دی۔ لیکن اب ماضی کی غلطیاں دہرانے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا
ڈاکٹر سیف الرحمٰن
کراچی کے جو مسائل ہیں اِن سے سب ہی کو پریشانی ہے۔ ٹریفک کا مسئلہ ہے، سیوریج کا نظام ہے، پارکنگ کا مسئلہ ہے، جہاں دو منزلہ بلڈنگ بننی تھی۔
وہاں چار منزلہ بلڈنگ بنا دی گئی۔ جہاں چار بننی تھی وہاں چھے منزلہ بن گئی، جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ریگولیٹری سسٹم کام نہیں کر رہا ہے ،کراچی کا ایک بڑ امسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی لینڈ اونر شپ ایک درجن سے زائد اداروں کے پاس ہے
پروفیسر سروش لودھی
اداروں کی ملی بھگت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات ہو نہیں سکتیں۔ کوئی بھی عمارت تعمیر کرنے کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا این او سی ہونا ضروری ہے۔
اس کے بغیر چھوٹی سے چھوٹی تعمیر بھی ممکن نہیں،ہم سب چاہتے ہیں کہ شہر بہتر ہو لیکن اس کے لیے ایک باضابطہ پلان کی ضرورت ہے،کراچی ڈھائی کروڑ افراد کا شہر ہے۔ اگر حکومت ان لوگوں کو سہولت فراہم نہیں کرے گی تو یہ خود ہی سب چیزیں بنالیں گے۔
محسن شیخانی
سپریم کورٹ نے کراچی کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا ہے اور اس حوالے سے بہت اہم فیصلے دیئے ہیں، شاہراہ فیصل پر ملٹری لینڈ پر قائم تمام کمرشل عمارتوں کو گرانے کا بھی حکم آیا ہے۔ اسی طرح کالا پل، ٹی اینڈ ٹی کالونی، دہلی کالونی اور گزری میں جہاں قوانین کے برخلاف کثیرالمنزلہ عمارات بنا دی گئی ہیں۔ ان سب کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ کراچی کا گزشتہ تیس پینتیس سال میں جو حال ہوا ہے۔ اس کا انجام آخر کار یہی ہونا تھا۔ اس بگاڑ کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن تعمیر میں تخریب نہیں ہونی چاہیے۔ جو لوگ تیس پینتیس سال سے رہ رہے ہیں انہیں بے گھر کرنا مناسب نہیں ہو گا یہ ان کا نہیں اداروں کا قصور ہے۔ جنہوں نے وہاں رہنے کی اجازت دی۔ ان کو بے دخل کرنے سے پہلے ان کی آباد کاری کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ ہمارا آج کا موضوع ہے ’’تجاوزات کا خاتمہ اور کراچی کی بحالی‘‘۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سروش لودھی کا شکر گزار ہوں، آپ آج دوسری مرتبہ جنگ فورم میں تشریف لائے ہیں۔ ’’آباد‘‘ کے چیئرمین محسن شیخانی بھی موجود ہیں۔ ان دنوں آپ کی پریشانی بڑھ گئی ہے کیوں کہ جن منصوبوں کو گرانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے بہت سے آباد ممبران کے ہیں۔ میٹروپولیٹن کمشنر اور کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سیف الرحمٰن بھی ہیں تو ہم محسن شیخانی سے آغاز کرتے ہیں۔
جنگ: آپ ’’آباد‘‘ کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوئے۔ یہ بتائیے کہ کراچی میں کیا ہونے جا رہا ہے کیا منصوبہ ہے، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ راتوں رات ہیوی مشینری لے کرآئیں اور عمارتیں گرانا شروع کر دیں؟
محسن شیخانی:کراچی میں اس وقت جو بھی غیر قانونی تعمیرات ہیں ان کے پیچھے زیادہ ہاتھ اداروں کا ہے کیوں کہ اداروں کی ملی بھگت کے بغیر غیر قانونی تعمیرات ہو نہیں سکتیں۔ کوئی بھی عمارت تعمیر کرنے کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا این او سی ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر چھوٹی سے چھوٹی تعمیر بھی ممکن نہیں۔ حال یہ ہے کہ چالیس چالیس گز کے پلاٹوں پرآٹھ آٹھ منزلیں بن رہی ہیں۔ ہمارا شروع ہی سے کہنا ہے کہ کوئی واضح پالیسی دی جائے اور غیر قانونی اور بے ہنگم تعمیرات کو روکا جائے۔ تنگ گلیوں میں نہ تو ایمبولینسز جا سکتی ہیں نہ فائر بریگیڈ، خدانخواستہ اگر زلزلہ آجائے تو ہزاروں بلکہ لاکھوں جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ این ای ڈی یونیورسٹی، نسٹ اور ایسے ہی دوسرے اداروں سے مشاورت کی جائے اور اس قسم کی بے ہنگم ناقص اور غیر قانونی تعمیرات کا کوئی حل نکالا جائے۔ یہ اچھی بات ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے آنا شروع ہوئے اور مختلف غیر قانونی تعمیرات کے بارے میں احکامات صادر ہوئے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایسے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں جو اسٹیک ہولڈر نہیں بلکہ بلیک میلر ہیں۔ اُس بلڈنگ کا نام لیا، کسی دوسری بلڈنگ کا نام لے لیا۔ یہ ماحول دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی دربار ہے، یہ جو بلڈنگ جو آج ٹوٹ رہی ہے، راشد منہاس روڈ پر ہے ’’آباد‘‘ کے ممبر ہیں انہوں نے زمین خریدی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے، بورڈ آف ریونیو سے این او سی لیا دیگر تمام متعلقہ اداروں نے انہیں ا ین او سی دیا اس کے بعد اس کی تعمیر شروع ہوئی آج ڈھائی سال کے بعد عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ یہ زمین ہارٹی کلچر سوسائٹی کو الاٹ ہوئی تھی۔ اس میں لوگوں کے تقریباً ڈیڑھ سو کروڑ روپے لگے ہیں۔ جنہو ں نے اس پروجیکٹ میں بکنگ کرائی تھی۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ ہیں اگر ہم ان لوگوں کو انصاف نہیں دلا سکتے تو ہمیں ’’آباد‘‘ میں بیٹھنے کا حق نہیں۔ جتنے بھی گورنمنٹ آفیشل ہیں اور جو جانتے ہیں کہ سب چیزوں کی اَپروول ہے تو خدارا وہ یہ بات کہیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہو رہی ہے اگر کوئی بات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ باہر نکل جائیں وغیرہ وغیرہ۔
جنگ: آپ نے کوئی متبادل پلان دیا ہے، کراچی کی اصل صورت میں بحالی سے کوئی انکار نہیں کرتا۔؟
محسن شیخانی:ہمارا سب کا کہنا ہے کہ کراچی بہتر ہو لیکن آپ کو کوئی پلان ڈیزائن کرنا پڑے گا یہاں تو عالم یہ ہے کہ ملبہ تک نہیں اٹھا رہے ہیں اداروں کے پاس تو کام کرنے کے لیے فنڈ ہی نہیں ہیں۔ اگر کوئی چیز قانونی ہے تو ہمیں اسٹینڈ لینا چاہیے جیسے سعید غنی صاحب نے کہا کہ میں وزارت چھوڑ دوں لوگوں کو بے گھر نہیں ہونے دوں گا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ شہر بہتر ہو لیکن اس کے لیے ایک باضابطہ پلان کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ دو سال کے لیے کنسٹرکشن انڈسٹری بند کر دیں تو ہم بند کر دیں گے۔ ہم کہیں اور کاروبار کر لیں گے۔ اسلام آباد چلے جائیں گے لاہور چلے جائیں گے۔ کراچی ڈھائی کروڑ افراد کا شہر ہے۔ اگر حکومت ان لوگوں کو سہولت فراہم نہیں کرے گی تو یہ خود ہی سب چیزیں بنالیں گے۔ اسپتال چاہے خود بنالیں گے، اسکول چاہیے تو بنگلوں میں اسکول بنالیں گے، شادی ہال بنالیں گے، یہ ضرورت ہے، یہ زندہ لوگ ہیں۔ اگر پلان نہیں ہے، چیزیں نہیں، تو یہ خود بنائیں گے۔ یہ پانی کی طرح ہیں اپنا راستہ خود بنائیں گے۔ آپ اداروں کو مضبوط کریں۔ قانون پر عمل درآمد کرائیں۔
جنگ:سروش صاحب، آپ کی کیا رائے ہے۔ یہ سب کام کس طرح ہونا چاہیے۔؟
پروفیسر سروش لودھی: جہاں تک کراچی میں تعمیرات کا تعلق ہے، اس میں شک نہیں ہے بے ہنگم طریقے پر یہ شہر پھیلا ہے، شہر میں جو ابتری آئی ہے اسے بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی کے جو مسائل ہیں اِن سے سب ہی کو پریشانی ہے۔ ٹریفک کا مسئلہ ہے، سیوریج کا نظام ہے، پارکنگ کا مسئلہ ہے، جہاں دو منزلہ بلڈنگ بننی تھی۔ وہاں چار منزلہ بلڈنگ بنا دی گئی۔ جہاں چار بننی تھی وہاں چھے منزلہ بن گئی، جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ ریگولیٹری سسٹم کام نہیں کر رہا ہے اگر ہے تو بہت کم زور ہے اور اس کی کم زوری سے بہت سے لوگوں نے ناجائز فائدے اٹھائے ہیں۔ جس طرح ہم برائی بیان کرنے میں احتیاط نہیں کرتے اور تعریف کرنے سے گریز کرتے ہیں، میں کہوں گا کہ بہت سے اہل اور قابل افسران بھی ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی دبائو کے بغیر کام کرتے ہیں۔ شہر کے لیے ایک نئے ماسٹر پلان پر کام ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کون سی چیز غیر قانونی ہے اور کس حد تک غیر قانونی ہے۔ مثلاً زمین کی الاٹمنٹ ہی غلط ہے یا الاٹمنٹ صحیح ہے تو بلڈنگ کے فلورز قانونی نہیں ہیں۔ اس کے لیے تمام اداروں کو مربوط ہو کر کام کرنا ہو گا۔ کراچی کا ایک بڑ امسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کی لینڈ اونر شپ ایک درجن سے زائد اداروں کے پاس ہے۔ کے ایم سی کی اپنی حدود ہیں، کے ڈی اے کی اپنی حدود ہیں، یہ دو ادارے سمجھ لیں بہن بھائی ہیں لیکن ان کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈز ہیں۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہے۔ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہے ان کے الگ الگ دائرہ کار ہیں، قوانین ہیں جن کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کراچی دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ اسے چلانے کے لیے ایک منظم اور بڑی ورک فورس کی ضرورت ہے، وسائل درکار ہیں اور ایک مضبوط ریگولیٹری سسٹم بھی چاہیے۔ پہلے ہم منصوبہ بندی کی طرف توجہ دیں اور طویل المدتی منصوبہ بنائیں اور جو لوگ عمل درآمد کے ذمے دار ہوں انہیں جواب دہ بھی ہونا چاہیے۔ اس کا بھی تعین کیا جائے گاکہ اگر کوئی غیر قانونی کام ہوا ہے تو کن لوگوں کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔ ظاہر ہے اس حوالے سے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بلکہ کرنا چاہیے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں، ہمیں ان سے ہمدردی ہے یقیناً ان کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکلے گا۔
جنگ:اس وقت کراچی جن ہاتھوں میں ہے اور جو شہر کا نظام چلا رہے ہیں ان میں ڈاکٹر سیف الرحمٰن ہیں۔ سعید غنی کا بیان بھی آپ سب کے سامنے ہے۔ سابق ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر سے متاثر ہونے والوں کو آباد کیا گیا، مشرف کالونی بنی حالیہ مہم کے حوالے سے ہماری استدعا ہے کہ اس میں جلد بازی کی ضرورت نہیں۔ جہاں اتنا وقت گزرا ہے وہاں کچھ مزید وقت دیا جائے۔ صوبائی، وفاقی، مقامی حکومت، ریلوے، سب ہی اسٹیک ہولڈرز مل کر بیٹھیں اور کوئی قابل حل راستہ نکالیں۔ یہ انسانی مسئلہ ہے، عوام کا مسئلہ ہے ڈاکٹر سیف الرحمٰن سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے کیا پلان بنایا ہے کہ لوگوں کا کم سے کم نقصان ہو؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن : میں یہ کہوں گا کہ کراچی دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے، دنیا کے پچاس ملکوں سے زیادہ بڑا ہے، پاکستان کا اکنامک حب ہے یہاں جو ثقافتی رنگ نظر آتا ہے، پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں نہیں ہے۔ پھول کے اتنے رنگ نہ ہوں جتنے یہاں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑے شہروں کے جو تقاضے ہوتے ہیں ہم اُن سے نابلد ہیں، دنیا کا شاید ہی کوئی اتنا بے ہنگم شہر ہو۔ 1957ء میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنی، ایک برٹش کمپنی آئی اس نے اس شہر کو ایک عالمی شہر بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ کراچی کا ماسٹر پلان ترتیب دیا، ایسے علاقے بنائے گئے جو ایک شہر کی ضرورت ہوتے ہیں۔ نارتھ ناظم آباد، فیڈرل اے اور بی ایریا یہ علاقے کراچی کی پہچان تھے۔ کراچی شہر نے لوگوں کو شہری علاقوں میں بسنے کا قرینہ سکھایا۔ شہری منصوبہ بندی کسے کہتے ہیں۔ لیکن 1990ء سے لے کر 2020 تک ان تیس برسوں میں جو بے ربطی بڑھی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ تجاوزات کے خلاف مہم سے جو لوگ متاثر ہو رہے ہیں اس کی بھی ایک کاسٹ ہے۔ تصویر کے دو پہلو ہیں جب ہم نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں کارروائی کی تو لوگوں نے کہا کہ غریب لوگ متاثر ہو رہے ہیں، بے روزگار ہو رہے ہیں۔ یہ تصویر کا ایک رُخ تھا لیکن دوسرا رُخ یہ بھی تھا کہ یہاں سے گزرنے والے لاکھوں کروڑوں افراد کو دشواری تھی، پریشانی تھی، گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا تھا۔ ایندھن کا زیاں الگ، وقت کا زیاں الگ تھا۔ فٹ پاتھ پرچلنا جن کا بنیادی حق تھا وہ اپنے اس حق سے محروم تھے، ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے تھے، دھوئیں گردو غبار سے اس علاقے کے رہائشی افراد اور گزرنے والوں کی صحت خراب ہوئی۔ تجاوزات کے خلاف کارروائی سے چند سو افراد کا بے شک نقصان ہوا لیکن لاکھوں اور کروڑوں افراد کو فائدہ بھی ہوا۔ ملائشیا کا شہر کوالالمپور بھی اس قسم کے مسائل سے دوچار تھا۔ وہاں کی حکومت نے شہر کو جدید اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے ایک پلان بنایا۔ کچی آبادیاں ختم کی گئیں۔ کثیرالمنزلہ عمارات بنائی گئیں۔ کراچی میں کوئی نئی چیز نہیں ہو رہی ہے۔ پچاس سال پہلے کے نیو یارک شہر کا ماڈل ہمارے پاس موجود ہے۔ شہر کی ترقی اور یہاں کے کروڑوں افراد کی بہتری کے لیے ہمیں کڑوی گولی نگلنا ہو گی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اور اس کی آئندہ نسلیں اس طرح گندگی اور آلودگی کے عالم میں گجر نالے پر رہتی رہیں گی، بیماریوں میں زندگی گزرے گی۔ صاف پانی نہیں ملے گا، تعلیم نہیں ہو گی، دیگر مسائل ہوں گے تو پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا سماجی نقصان تو اس سے ہو رہا ہے۔ تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک پلان کیا جائے اور جو صحیح ہے وہ کر گزرنا چاہیے۔ ابھی جو سپریم کورٹ کی بات ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر گیلانی ریلوے اسٹیشن کے پاس جو زمین ہے، بچپن ہی سے مجھے معلوم تھا کہ ریلوے لائن کے اطراف دوسو گز تک مکان نہیں بنتے، لیکن 1980ء کے بعد یہاں مکانات بننے شروع ہوئے۔ حالاں کہ میں چھوٹا تھا، لیکن میں حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اپنے والدین سے پوچھتا تھا تو جب لوگوں نے یہاں فلیٹ خریدے مکان خریدے تو کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ ریلوے لائن کے قریب نہیں رہنا چاہیے۔ میں پوری مثال نہیں دینا چاہتا، یہ کہوں گا کہ اس حمام میں سب برابر ہیں۔ لیز دینے والے، لیز لینے والے، فروخت کرنے والے، خریدنے والے سب ہی شامل ہیں۔
جنگ: ڈاکٹر صاحب، یہ بھی تو دیکھیں اداروں نے اپنا کام نہیں کیا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: آپ کی بات بجا ہے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ دونوں طرف سے غلطی ہوئی ہے۔ لیکن ہم نے اداروں کو مضبوط بنانے پر بھی تو توجہ نہیں دی۔ لیکن اب ماضی کی غلطیاں دہرانے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا۔
جنگ:اب آپ کیا کرنے جا رہے ہیں؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: سپریم کورٹ کا واضح حکم ہے کہ متاثرہ لوگوں کو آباد کیا جائے، آپ نے لیاری ایکسپریس وے کی مثال دی جو آباد کاری کا ایک معرکۃ الارا منصوبہ تھا۔ لائنز ایریا میں نیو پریڈی اسٹریٹ نکلی، متاثرہ لوگوں کو اباد کیا گیا۔ یہ چیزیں ناممکنات میں سے نہیں ہیں۔
جنگ: صحیح ہے۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: لیکن ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر غلطی ہو گئی ہے تو اس کی تلافی یا تصحیح ضرور کرنا چاہیے۔ یہ بے شک ایک انسانی المیہ یا بحران ہے لیکن اس بحران پر قابو پا لیا جائے گا۔ یہ نہیں کہ جو چیز صحیح ہونے جا رہی ہے، اس کے بارے میں ایسے دلائل دیئے جائیں کہ وہ صحیح چیز ہی ختم ہو جائے۔ ہم آباد کریں گے، بحال کریں گے۔
جنگ:کیسے کریں گے اور کب کریں گے، کب آغاز ہو رہا ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: تجاوزات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ پہلی کلیتاً غیر قانونی یعنی تجاوزات کرنے والوں کے پاس کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے۔ دوسرے دستاویزات ہیں مگر اجرا غلط ہوا ہے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، ان کو آباد کیا جائے گا۔ حکوت سندھ نے باقاعدہ منصوبہ تیار کیا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ہے۔ جو لوگ اس شہر میں رہیں گے۔ اُن کے لیے کھلی جگہ ہو گی، پارک ہوں گے کھیل کے میدان ہوں گے۔ دیگر سہولتیں ہوں گی اور لوگ سکون سے جا سکیں گے۔ کچی آبادی کے لیے ہمارے ہاں دو ادارے ہیں ایک حکومت سندھ کا، دوسرا بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ہے۔ کچی آبادیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کا حکم ہے انہیں کثیرالمنزلہ عمارتوں میں بدلنا ہے۔ یہ سب متاثرہ لوگوں کی بہتری کے لیے کیا جائے گا۔
جنگ:اب ہم فورم کو اوپن کرتے ہیں، آپ اپنا نام بتا کر سوال کریں۔
زاہد فاروق: سپریم کورٹ نے گزشتہ سال حکم دیا کہ سرکلر ریلوے کو بحال کیاجائے۔ کراچی کے شہریوں کا پورا حق ہے کہ انہیں سہولتیں ملیں۔ سپریم کورٹ کا یہ حکم تھا کہ ایک سال کے اندر متاثرین کی آبادکاری کے انتظامات کیے جائیں۔ آج نو ماہ گزر گئے ہیں آج تک کسی نے متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر بات نہیں کی۔ ہم نیت پر شک نہیں کرتے سندھ حکومت پر شک نہیں کرتے۔ لیکن جب متاثرین کےساتھ بات نہ کی جائے انہیں اعتماد میں نہ لیا جائے تو کیا ہو گا؟ سابق ناظم نعمت اللہ خان متاثرین سے ملاقات کرتے تھے۔ ان کے مسائل سنتے تھے لیکن آج کے دور میں یہ پریکٹس ختم ہو گئی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ متاثرین کو اعتماد میں لیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انہیں آباد کریں۔ ریلوے کی زمین کو قبضے سے بچانے کے لیے حفاظتی دیوار تعمیر کریں۔ جب حکومت اپنی ہائوسنگ اسکیم نہیں لائے گی تو کم آمدنی والا طبقہ اپنے روزگار کے نزدیکی مقام پر رہنے کی کوشش کرے گا اور کچی آبادیاں قائم ہوں گی۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن:جی بالکل رابطے کا فقدان ہے، بالکل درست نشاندہی کی گئی ہے۔ جہاں تک متاثرین کی آبادکاری کی بات ہے، سپریم کورٹ حکم دے چکی ہے۔ آباد کاری کے علاقوں میں پانی، اسکول، اسپتال اور کھیل کے میدان وغیرہ کا بھی انتظام کیا جائے۔ ان میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں جن کے لیز مکانات یا فلیٹس وغیرہ ہیں۔ دوسرے جو قابضین ہیں ان کی بھی آبادکاری ہو گی۔ کابینہ کا فیصلہ موجود ہے کہ کسی کو بے گھر نہیں کیا جائے گا۔
محسن شیخانی: پانی کی بات کی گئی، ہمارے پاس پانی ہی نہیں۔ جب ظل نظامی، کے ڈی اے کے ڈائریکٹر تھے اس وقت کراچی میں سترہ فی صد کچی آبادیاں تھیں۔ اب پچاس فی صد سے زیادہ کچی آبادیاں ہیں اگر ہم ان چیزوں کو نہیں دیکھیں گے کہ کیسے ہوئیں، کہاں سے ہوئیں، یہ سب کیسے ہو گیا، یہ ایک آرڈر سے درست نہیں ہو گا۔ اس کے لیے ایک طویل المدتی پلان کی ضرورت ہے۔ یہ عدالتوں کی ذمے داری نہیں، ہماری اپنی ذمے داری ہے یہ حکومتوں کا کام تھا، یہ اداروں کا کام تھا۔ یہ تو آج اداروں نے اپنا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا ہے، تب ہی تو سپریم کورٹ آرڈر دے رہی ہے۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: مجھے اپنے بھائی محسن شیخانی سے اختلاف ہے، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جہاں اداروں نے کام نہیں کیا وہاں ’’دوسرے ہاتھ‘‘ نے بھی کام دکھایا ہے۔
محمد طارق: 2009ء میں جائیکا کی فہرست کے مطابق چار ہزار تین سو تریپن گھر، سرکلر ریلوے سے متاثر ہو رہے تھے، کہا گیا تھا کہ ان لوگوں کو پہلے گھر دیئے جائیں گے پھر کسی کا گھر گرایا جائے گا۔ ابھی آپ لوگوں نے گھر گرانا شروع کر دیئے اور کسی کو متبادل رہائش نہیں دی۔ آپ اپنے وعدے کے مطابق انہیں متبادل رہائش تو فراہم کریں۔ دوسرے یہ کہ جو عمارتیں پچاس فٹ سے کم فاصلے پر بنی ہیں کیا انہیں بھی گرایا جائے گا۔ سعید غنی صاحب نے اس کام کو اسی لیے روکا تھا کہ پہلے متبادل دو پھر منہدم کرو، میری آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے پر توجہ دیں وگرنہ ریلوے والے سب کچھ سندھ حکومت پر ڈال دیں گے۔ ریاست ماں ہوتی ہے۔ ریلوے ٹریک کے ساتھ بنے ہوئے مکانات کے رہائشی ریاست کی ذمے داری ہیں۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: جیسے میں پہلے بھی کہا ہے کہ آباد کاری لازم ہے۔ کراچی سرکلر ریلوے کے جو متاثرین ہیں۔ غیرلیز شدہ جائیدادیں ہیں۔ ان سب کا سروے ہو چکا ہے۔ پہلے فاصلہ زیادہ تھا لوگ زیادہ متاثر ہو رہے تھے۔ لہٰذا دوبارہ سروے کے بعد پچاس فٹ کی حد مقرر کی گئی کہ پچاس فٹ کے اندر اندر جو ہیں انہیں ہٹایا جائے گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کو ہر صورت میں چلانا ہے۔ اس کے لیے جتنی زمین درکار ہو گی وہ حاصل کی جائے گی۔ تجاوزات ہٹائی جائیں گی۔ کمرشل پلازہ ہیں یا دوسری تعمیرات ہیں وہ بھی ہٹائی جائیں گی۔ باقاعدہ ری سیٹلمنٹ ہو گی۔ سب کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ انسان جس گھر میں رہ رہا ہو وہ وہاں سے ہٹا دیا جائے تو پریشانی تو یقیناً ہو گی۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہمیں بہتری کی طرف جانا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ مشکل میں ہیں انہیں بھی آباد کرنا ہے۔
ڈاکٹر عاصم: میں نے اربن ٹرانسپورٹیشن میں پی ایچ ڈی کیا ہے اور میرا کام ماس ٹرانزٹ کے حوالے سے بھی ہے میں اپنے شہر کراچی کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے ہمیں اس چیز پر کام کرنا چاہیے کہ دنیا بھر میں ٹرانسپورٹیشن کو کس طرح بہتر بنایا گیا ہے۔ یہ کام اکیڈمیز اور ٹیکنالوجسٹ کریں گے۔ چاہے وہ آباد کے ساتھ رہیں یا کمشنر آفس کے ساتھ رہیں تو آپ سے درخواست ہے کہ آپ جس حد تک ٹیکنالوجسٹ کو، محققین کو، اکیڈمیز کو اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں کیجئے تاکہ وہ شہر کی بہتری کے لیے کام کر سکیں۔ دوسرے یہ کہ کراچی میں دوسرے صوبوں سے ہونے والی نقل مکانی کو جس حد تک روکا جا سکتا ہے، روک دیں۔ زیادہ آبادی کی وجہ سے ہم شہری سہولتوں کی بہتر انتظام کاری کرنے سے قاصر ہیں۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: آپ نے وہ بات کہی ہے جو بہت پہلے سے کہتا آیا ہوں۔ میں کولمبیا یونی ورسٹی میں پڑھتا تھا، وہاں یونی ورسٹی پروفیسرز کا کام یونی ورسٹی میں اتنا نہیں تھا جتنی قومی اور شہری سطح پر تھا۔ وہ پالیسیز بنانے میں حصہ لیتے تھے۔ وہاں میری انکھیں کھلیں، میں اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ جب تک اکیڈمیز اور انتظامیہ کا ربط نہیں ہو گا۔ بیوروکریٹس غلطی پر غلطی کرتے رہیں گے۔ ہم عمومی معلومات رکھنے والے فرد ہوتے ہیں۔ آپ کو سن کر خوشی ہو گی کہ سروش لودھی صاحب ہمارے بہت سے بورڈز کے رکن ہیں۔ سندھ انفرا اسٹرکچر بورڈ میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر نعمان ہیں۔ عارف حسن ہیں تو اس کی ضرورت پاکستان میں بالکل ہے۔ دوسری بات جو آپ نے کہی جب گائوں، دیہات یا ٹائون میں معاشی سرگرمیاں نہیں ہوں تو وہاں کے لوگوں کو روزگار کیسے ملے گا۔ ملک کے دوسرے علاقوں سے جو لوگ کراچی آتے ہیں وہ روزگار کے لیے آتے ہیں تو ہمیں ان کے علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا بہترین نمونہ امریکا ہے۔ وہاں چھوٹے چھوٹے شہروں اور کائونٹی میں بھی وہی سہولتیں دستیاب ہیں۔ جو شہری علاقوں میں ہیں۔ ہمارے لیے نقل مکانی روکنا مشکل ہے۔ آئین ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن ہمیں یہ عزم ضرور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے پس ماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ بنائیں۔ اس بارے میں ہمیں سروش لودھی صاحب سے ضرور معلوم کرنا چاہیے۔
پروفیسر سروش لودھی: جناب، بات اہلیت کی ہے مجھے درس و تدریس میں چالیس سال گزر گئے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جب تک اُستاد میں خوشبو نہیں ہوگی، دوسرا پیچھے نہیں آئے گا۔
انصاری: میرا تعلق ضلع وسطی سے ہے۔ سرکلر ریلوے کی بحالی کے نام پر ہمارے گھر منہدم کر دیئے گئے ہیں، ہمار ے اوپر تو قیامت بیت گئی ہے۔ اب ہم کس قیامت کا انتظار کریں۔ کوئی ہمارا حال پوچھنے والا نہیں ہے۔ آپ آئیں اور دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے۔؟ گزشتہ رمضان میں ہمارے گھر ٹوٹے تھے۔ عید آئی ہم نے وہ ٹوٹے مکانوں کے ملبے پر گزاری، اب پھر رمضان کی آمد آمد ہے۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: میں نے بہ صد احترام آپ کی بات سنی، یہ میری ذمے داری ہے۔ ضلع وسطی میں یہ ہوا ہے میں مانتا ہوں۔ میری نظر میں سب برابر ہیں۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جس طرح ایک ماں اپنے بچوں میں امتیاز نہیں کرتی۔ ریاست بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ ہماری نظر میں سب شہری برابر ہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے۔ ہم سب کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں تاکہ کوئی پیچھے نہ رہ جائے۔
جنگ: آئندہ یہ کوئی نہ کہہ سکے کہ اداروں نے اپنا کام درست طریقے سے نہیں کیا۔؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: جی ہاں، ہماری کوشش یہی ہو گی کہ جو چیز ٹوٹی ہے اس کا متبادل موجود ہو۔
سوال:میٹرک بورڈ کے پاس جو دو فلائی اوورز ٹوٹ گئے اور وہاں گرین لائن کا ٹریک بنا دیا ہے، کیا وہاں سرکلر ریلوے لائن بحال ہو جائے گی۔؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: اس کا انجینئرنگ حل موجود ہے۔ یہاں بہت جگہ ہے، سنگاپور میں تو چالیس چالیس منزلہ بلڈنگ کے نیجے سے ریلوے لائن گزر رہی ہے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
جنگ: جب ادارے یا حکومت ایک صفحے پر نہ ہوں ایسے ایشوز آتے ہیں۔ رابطے کا فقدان ہے۔ سندھ حکومت کا نقطہ نظر کچھ اور ہے وفاق کا کچھ اور ہے، بلدیہ عظمیٰ کا کچھ اور ہے۔ نجی شعبے کی شنوائی ہوتی نہیں ہے’’آباد‘‘ کے چیئرمین بیٹھے ہیں۔ کراچی کی بحالی کے لیے سب ایک صفحے پر تو ہوں۔؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: یہ جو جنگ فورم ہے۔ ایسے ہی فورم شروعات ہوتے ہیں کراچی میں بہت سے تھنک ٹینک ہیں۔ ان کی تجاویز آتی رہتی ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر کو ایک ہی اتھارٹی کے تحت نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ادارے کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ یہ تھنک ٹینک، این جی اوز، ادارے جو ہیں، ہم بتدریج اسی طرف جا رہے ہیں۔ کچھ وقت لگے گا لیکن ہم اُسی طرف جا رہے ہیں جہاں بہتری کے راستے نکلتے ہیں۔
محسن شیخانی:ڈاکٹر صاحب، ایک بلڈنگ بننا شروع ہوئی، لوگوں نے سرمایہ کاری کی یہ بلڈنگ راشد منہاس روڈ پر ہے۔ اس کا نقشہ بھی پاس ہے۔ تمام ڈاکومنٹس بھی ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، الاٹی کہاں جائیں۔؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: عدالت کا جو آرڈر ہوتا ہے اس کی کوئی بنیاد ہوتی ہے۔ جواز ہوتا ہے۔ کسی ڈاکومنٹ کے صحیح یا غلط پر ہوتا ہے۔ اس عمارت کا مدر ڈاکومنٹ درست نہیں ہے، اس پر عدالت نے فیصلہ دیا ہے۔ لوگوں کو آگاہی کی ضرورت ہے۔ میں نے ایک اخبار میں ایک فہرست دیکھی جس میں بیان کیا گیا تھا کہ یہ ادارے یا کمپنیز درست نہیں ہیں۔ لہٰذا عوام ان سے خریداری نہ کریں۔ دوسرے دن الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں ان کی تشہیر نظر آئی۔ شہر میں پوسٹر اور بینرز بھی لگے نظر آئے۔ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی ایک روپے کی میز آٹھ آنے کی دے رہا ہے تو چیز سستی نہیں ہے بلکہ کوئی مشکوک بات ہے تو عوام کو چاہیے کہ رسک نہ لیں۔ میں کوئٹہ کا ڈپٹی کمشنر تھا لوگ پوچھتے تھے کہ جگہ سستی مل رہی ہے تو یہ کیا میں لے لوں، میں کہتا تھا کہ اگر قیامت بھی آجائے اور اکیلے تم ہی رہ جاؤ، تب بھی نہ لینا۔ تو آگاہی کی ضرورت ہے ’’آباد‘‘ کے محسن بھائی بھی یہ کر سکتے ہیں۔ کورونا وائرس ہے تو گلے ملنے کی، ہاتھ ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنا کلچربدلنے کی ضرورت ہے جس زمانے میں چائنا کٹنگ ہو رہی تھی میں کراچی میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ لوگ آتے تھے کہ جگہ مل رہی ہے ویسے تو ساٹھ لاکھ کی ہے لیکن بندہ تیرہ چودہ لاکھ میں دے رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ کاغذات بھی بنوا دوں گا تو میں منع کرتا تھا۔ لیکن میری کوئی سنتا نہیں تھا۔ سب نے خریدا۔ اس میں دونوں طرف کا ایشو ہے۔ خریدنے والا بھی اتنا ہی قصور وار ہے جتنا فروخت کرنے والا۔ میں نے کیوں نہیں خریدا۔ پروفیسر سروش لودھی نے کیوں جگہ نہیں لی۔ محسن شیخانی نے یا آپ نے کیوں وہ جگہ نہیں لی؟ لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اس طرح ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
جنگ: کراچی کی بحالی کی مہم شروع ہو گئی ہے۔ اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی کتنی ضرورت ہے۔؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن: دنیا جس طرح ترقی کر رہی ہے۔ بہت سی چیزیں سرکار کے بس سے باہر ہو گئی ہیں۔ ٹیکنالوجی لوگوں کو اس تیزی سے ایجوکیٹ کر رہی ہے کہ لوگ ہم سے زیادہ اسمارٹ ہوتے جا رہے ہیں ان کو اب ہماری اتنی ضرورت نہیں ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایک بہتر حل ہے۔ لیکن حکومت کی چیز پکی ہوتی ہے۔ کے ڈی اے کے الاٹمنٹ لیٹر کا کاغذ اگر پھٹا ہوا بھی ہے تو لوگوں کا اس پر بھروسہ ہوتا ہے۔ تو آپ جو راستہ اختیار کریں اس میں سیفٹی ہو، گارنٹی ہو، چیزیں ہوا میں نہ ہوں۔
پروفیسر سروش لودھی: دنیا بھر میں اس طرح کے ماڈل موجود ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا ہے کہ انقرہ شہر میں ایک گندہ نالا تھا وہاں کچی آبادی تھی حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا دیں اور کچی آبادی میں رہنے والوں کو دے دیں۔ میری اپنی رائے ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا جتنا اچھا سسٹم حکومت سندھ کے پاس ہے کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہے۔ درجنوں پروجیکٹس پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چل رہے ہیں۔ ابھی نہر خیام کا پروجیکٹ شروع ہوا ہے۔
جنگ: محسن شیخانی صاحب، آپ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
محسن شیخانی: میرا خیال ہے کہ دنیا بھر میں اسی ماڈل پر کام ہو رہا ہے۔ حکومت سندھ کی طرف سے بہت ایکٹیویٹی ہوئی ہے۔ اینگروتھر کول ایک بہت بڑی مثال ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے سوا ہمارے پاس دوسرا کوئی حل نہیں ہے۔ ہماری معیشت آج جس مقام پر ہے اس میں کوئی بہت بڑا کام نہیں کر سکتے۔ انفرا اسٹرکچر کے لیے، ہائوسنگ کے لیے، اربوں کھربوں روپے درکار ہوتے ہیں۔ ہمیں ماحول پیدا کرنا ہے۔ مقامی سرمایہ کار ہوں گے تو غیر ملکی سرمایہ کار بھی آئیں گے۔ اچھی پالیسیز وضع کرنا ہوں گی تاکہ بعد میں نیب کے ایشو نہ آئیں ہمیں۔ بھی فیڈرل ہائوسنگ کے لیے جوائنٹ وینچر کا کہا گیا ہے تو اگر اس حکومت کے بعد کوئی دوسری حکومت آئی تو جواب کون دے گا؟ ہم نیب کے پیچھے ہی بھاگتے رہیں گے۔
جنگ: آپ کا بہت بہت شکریہ۔