• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے دنیا کے مختلف ممالک نےمتعدد اقدامات کیے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستان نے بھی بڑی سرعت سے قدم اُٹھایا۔سوال یہ ہے کہ ہم امریکہ، یورپ، چین اور عرب ممالک کی تقلید میں جو اقدام کر رہے ہیں، کیا اس کے نتائج بھی اسی طرح مثبت نکلنے کے امکانات ہیں جس طرح مذکورہ ممالک میں برآمد ہوئے؟ کیا ہماری معیشت لاک ڈائون کے اثرات برداشت کرنے کی وہی قوت رکھتی ہے جو مذکورہ ممالک رکھتے ہیں۔ 

کہیں ایسا تو نہیں کہ سرکاری لائحہ عمل بہتری کے بجائے نقصان کا باعث بن جائے، کیا ہماری بیورو کریسی، تاجر اور حکومتی نمائندے ملکی دولت و غیر ملکی امداد کو اسی طرح اخلاص اور ترتیب سےخرچ کرنے کا جوہر و ہنر رکھتے ہیں جس طرح غیر رکھتے ہیں؟ درحقیقت ان سوالوں کےجوابات ہی اس امر کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ ہم اس چیلنج سے نمٹنے میں کس قدر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ظاہری کامیابی کے نتائج بعد از کامیابی کہیں منفی صورت تو نہیں لیے ہوں گے۔ 

ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بعض اقدامات بالخصوص یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں کیلئے وائرس سے بھی زیادہ خطرناک یعنی معاشی قتل ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

حال یہ ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آدھی آبادی تو مڈل کلاس میں شفٹ ہو گئی ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے مڈل کلاس پیچھے کی طرف اور غربت آگے کی طرف جا رہی ہے۔ پاکستان کی 70فیصد آبادی یومیہ محض 250 روپے کما پاتی ہے۔ 

گویا زیادہ تر لوگ یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے ہیں۔ پاکستان میں جہاں متعدد بیماریاں ہر روز موت بانٹ رہی ہیں وہاں سروے رپورٹ کے مطابق ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار ہے، یہاں لوگوں پر ذہنی دبائو باقی دنیا سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے مطابق پاکستان میں 33فیصد لوگ ذہنی پریشانی اور ڈپریشن، 4فیصد لوگ وہم اور 3فیصد بےجا خوف کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ منظرنامہ تقاضا کرتا ہے کہ ایسے اقدامات جس سے غریب و یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کورونا وائرس سے زیادہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں، پر خصوصی توجہ دی جائے۔ 

سادہ سی بات ہے کہ بڑی آبادی جس کا گزر بسر ہی روز کمانے پر ہے، وہ اگر گھر بیٹھ جائے گی تو لامحالہ ذہنی پریشانی میں مبتلا افراد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق پاکستان میں روزانہ 700افراد منشیات کے استعمال سے انتقال کر جاتے ہیں، اس سے ہمارے صحت کے نظام، انتظامیہ کی نااہلی یا منشیات فروشوں سے گٹھ جوڑ اور مذہبی عناصر کے معاشرے کی اصلاح میں ناکامی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 

آپ جانتے ہیں کہ جب 2005ء میں کشمیر و نواحی علاقوں میں زلزلہ آیا تو جہاں پاکستانیوں نے ایثار کی مثالیں رقم کیں وہاں بیرونی ممالک سے ریکارڈ امداد آئی مگر سرکاری افسران متاثرین کے کمبل تک گھروں کو لے گئے۔ تو کیا موجودہ حالات میں ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کی انتظامیہ و امداد تقسیم کرنے پر مامور افسران سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس کام میں رخنہ نہیں آنے دیں گے۔ ہم نے دیکھا کہ دو تین ماہ قبل ہر شے کی قلت ہو گئی تھی یہاں تک کہ ٹماٹر تین سو روپے فی کلو فروخت ہونے لگے، پھر ہم نے گزشتہ ہفتے تک دیکھا کہ یہی ٹماٹر 20روپے کلو ملنے لگے اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی کچھ کمی آئی۔ 

قابلِ غور امر یہ ہے، کیا اب ٹماٹروں سمیت دیگر اشیا کا نزول آسمان سے ہوا یا ذخیرہ اندوزوں نے اربوں روپے کمانے کے بعد یہ سلسلہ کسی حد تک موقوف کر دیا؟ کیا اس مافیا سے اُمید ہے کہ وہ موقوف سلسلے کو پھر سے شروع نہیں کریگا۔ 

سندھ حکومت نے وفاقی و دیگر صوبائی حکومتوں سے پہلے کریڈٹ لینے کے چکر میں حکمت عملی کے بغیر عجلت میں جو اقدام کیے ہیں اُس سے خصوصاً کراچی کی بہت بڑی آبادی متاثر ہوئی ہے، ایسے متاثرین کو گھروں پر راشن پہنچانے کے اعلانات پر اس لیے یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایک تو پورے پاکستان میں ایسا انتظام کرنے اور پھر مستحقین تک پہنچانے کا کوئی نظام ہی نہیں جبکہ دوسری طرف اس ملک کے بااختیار لوگوں کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ متاثرین کے نام پر مختص رقم و اشیا کچھ نمائشی تقسیم کے بعد خورد برد کر لی جاتی ہیں۔

 تاہم خوف کے اس عالم میں سب بے یقینی کا شکار ہیں، گویا اس وقت خلیل جبران کی ایک نظم کے مصداق عوام کی حالت قابلِ رحم ہے، فیض نے اس نظم کا ترجمہ اس طرح کیا ہے

قابلِ رحم ہے وہ قوم

جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں

مگر دل یقیں سے خالی ہیں

اور قابلِ رحم ہے وہ قوم

جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو اور جس کا ہر طبقہ

اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو...

تازہ ترین