• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں کورونا وائرس نے ایک نیا طوفان کھڑا کر دیا ہے جس سے ایسے لگتا ہے کہ رواں سال میں ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں معیشت اور سماجی حالات کا برا حال ہوگا جس کی زد میں پاکستان بھی آئے گا جہاں ملکی معیشت پہلے ہی صرف کاغذوں میں ترقی کر رہی ہے اور عملاً صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے 20، 25سال سے ایسے ہی چل رہا ہے، گو حکمرانوں کے دعوے تو ایسے ہوتے ہیں جیسے پاکستان ترقی پذیر نہیں، ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں پوزیشن پر ہے حالانکہ ملک میں اگر کچھ شعبوں میں ترقی ہوئی بھی تو اس کے مقابلے میں بیروزگاری اور کساد بازاری بھی دو گنا بڑھی۔ البتہ اس وقت کورونا نے سارا معاملہ ہی خراب کر دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اگر امریکہ میں کہا جا رہا ہے کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے بیروزگاری 20فیصد تک بڑھ جائے گی تو پاکستان میں صورتحال اس سے بھی کہیں سنگین صورت حال اختیار کر سکتی ہے۔ کورونا وائرس کے اس بحران کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نائن الیون سے بھی بڑا بین الاقوامی بحران ہے جس سے ساری دنیا مشکل ترین حالات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت اور عوام دونوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان کی درآمدات و برآمدات کا توازن مزید خراب ہونے سے ملک میں غربت و مہنگائی کا نیا طوفان آنے والا ہے۔ اس حوالے سے ہارورڈ اسکول آف بزنس کے ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر آئندہ چھ ماہ میں حالات صحیح نہ ہوئے تو دنیا میں ایک نیا معاشی بحران جنم لے سکتا ہے جس سے دنیا گلوبل ٹریڈ کے پرانے نظام یعنی بارٹر ٹریڈکی طرف جا سکتی ہے۔ مال کے بدلے مال کی تجارت! جس سے جدید ٹریڈ سسٹم اور بینکاری سسٹم متاثر ہو سکتا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کیلئے وزیراعظم یا حکومت کو بین الاقوامی اداروں سے قرضے معاف کرانے کی باتیں کرنے کے بجائے 30سال سے 40سال تک ری شیڈول کرانے کی بات کرنی چاہئے۔ اس دلیل میں وزن ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر ممالک اس بارے میں مثبت رائے اختیار کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتی اداروں کو ذمہ داری کے ساتھ اپنا مثبت رول اپنانے کی ضرورت ہے مقامی کاروبار اور سرگرمیوں میں غیر یقینی صورتحال بہتر بنانے کے لئے داخلی معیشت کے بحران اور عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنا از حد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں قومی ادارے دیہی اور شہری علاقوں میں عوام کو بہتر سے بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنے پر کام کریں۔ کورونا وائرس پر سیاست نہیں دانشمندی سے قابو پانے اور صورتحال کی سنگینی کا احساس کرنا ہی ہم سب کے مفاد میں ہے۔

اسپیشل نوٹ:جنگ اور جیو گروپ کے چیف ایگزیکٹو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر دنیا بھر کے صحافتی اور انسانی حقوق کے اداروں کی تنقید اور ردعمل کا تقاضا ہے کہ ان اداروں کی طرف سے تجاویز کردہ حل اور حکمت عملی کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دنیا بھر میں معاملات افہام و تفہیم اور حکمت عملی سے حل کیے جاتے ہیں لیکن اس سطح کے اقدامات کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں میں خوف اور پریشانی بڑھی ہے، میڈیا کی آزادی ہمیشہ حکومت کے مفاد میں رہی ہے جس سے ذمہ دار صحافت کے تقاضے پورے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جنگ گروپ کا لاہور اسٹیشن میر شکیل الرحمٰن کی بےمثال لیڈر شپ میں ستمبر 1981ء میں قائم ہوا، اس اخبار سے ملک میں صحافت کے نئے ٹرینڈز سیٹ کرنے سے بالواسطہ اور بلاواسطہ ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ذمہ دار صحافت کی ذمہ داریاں نبھانے والے سب اداروں کی سر پرستی حکومتی اقدامات کو صحیح طریقے سے اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے، اس لئے حکومت اور میڈیا کے درمیان کشیدگی نہیں، افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین