حسبِ معمول موسمِ بہار آہستہ آہستہ اتر رہا ہے۔ درختوں کی ٹہنیوں پر سرسبز شگوفے اور رنگ برنگ پھول بہار کا پیغام دے رہے ہیں۔ صحن، باغات، پارکس خوشبو سے معطر ہیں۔ یہ وہ موسم ہے جس کا انتظار رہتا ہے اور جس کی خوشبو سے ہم اپنی سانسوں کو معطر کرتے ہیں۔ اس بار موسمِ بہار عجیب رنگ میں آیا ہے کہ ہم سانسوں سے خوف زدہ ہیں، خوف کے مارے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں، دوستوں، عزیزوں سے ملنے سے گھبراتے ہیں اور گھر سے باہر قدم رکھتے ہی سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ ہاتھ ملا کر کسی ہمدم کی محبت کی تپش محسوس کرنا تو دور کی بات کئی فٹ کے فاصلے سے جگر کے ٹکڑوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ جن دلوں میں خوف الٰہی ہے وہ ہمہ وقت دعائیں پڑھتے اور اللہ کا رحم طلب کرتے ہیں۔ کل ایک عالم کہہ رہا تھا کہ یہ عذاب الٰہی ہے، جب عذاب الٰہی آتا ہے تو انسانوں کے درمیان تمیز اور فرق نہیں کرتا۔ احتیاط اور علاج سنت ہیں اور ضروری بھی لیکن دوا کو دعا سے ملا لو اور اللہ سے رحم مانگو تو اس سے دوا کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔
وبا عذاب اور بیماری ان معنوں میں آزمائش ہیں کہ کیا انسان اسکے خوف سے اپنے مالک حقیقی کی جانب رجوع کرتا ہے یا نہیں؟ اپنے پہ نگاہ ڈال کے گناہوں سے تائب ہوتا ہے یا نہیں؟ اسکی سوچ اور شخصیت نئے سانچے میں ڈھلتی ہے یا نہیں؟ اسلئے بزرگ کہا کرتے ہیں کہ بیماری بےشک آزمائش ہے لیکن جو لوگ اس آزمائش پر پورا اترتے ہیں ان کیلئے یہ رحمت اور دوسروں کیلئے زحمت بن جاتی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ وبا جب عذاب بن کر اترتی ہے تو مختلف قوموں کا بحیثیت قوم مختلف ردعمل ہوتا ہے۔ جن قوموں میں حب الوطنی، انسانی ہمدردی اور خدمت کا جذبہ فراواں ہے انکو رحمت الٰہی کی تائید حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ میرے رب کو مخلوق کی خدمت حد درجہ پسند ہے۔ قرآن مجید نے ذرہ بھر نیکی کے اجر کا وعدہ کیا ہے اور اس میں قوموں اور انسانوں میں حد فاصل نہیں کھینچی اور نہ ہی تمیز کی دیوار کھڑی کی ہے۔ احتیاطی تدابیر نہ کرنا بہادری نہیں، غفلت اور کم عقلی ہے۔ اٹلی جیسا یورپی ملک اسکی سزا بھگت رہا ہے اور انگلستان کی باری آنیوالی ہے۔ اتوار کو صرف چوبیس گھنٹوں میں اٹلی میں کورونا نے 1627انسانوں کو نگل لیا۔ پاکستان دیر سے بیدار ہوا ہے۔ شہروں کے رہائشی لاپروا اور پچاس فیصد دیہات میں بسنے والی آبادی غافل ہے۔ ایک گائوں یا قصبے میں فقط ایک کورونا سے متاثر شخص آ جائے تو وہ اسکی نصف سے زیادہ آبادی کی جان لینے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ وہاں علاج معالجے اور قرنطینہ کی سہولتیں ناپید ہیں۔ امریکہ جیسے خوشحال اور سائنسی حوالے سے ترقی یافتہ ملک کی مثال لیجئے۔ وہاں سات مارچ کو کورونا متاثرین کی تعداد 435تھی اور آج 35ہزار سے آگے جا چکی ہے۔ وجہ امریکی حکومت نے ٹیسٹنگ دیر سے شروع کی۔ اس وقت دنیا بھر میں کورونا مریضوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہے جو چند دنوں میں دس لاکھ ہونے کا خدشہ ہے۔ افریقی اور پسماندہ ممالک میں کورونا قیامت ڈھانے والا ہے۔اب ذرا ملاحظہ فرمائیں امریکی قوم کا ردعمل۔ بل گیٹس نے 120ملین یعنی 12کروڑ ڈالر اس عذاب سے نپٹنے کیلئے وقف کر دیے ہیں، ایپل نے بیس لاکھ صنعتی مہنگے ماسک اور ٹیسلا کار کمپنی نے ڈھائی لاکھ ماسک مفت تقسیم کیے ہیں۔ ٹیسلا اور جنرل موٹرز کمپنی نے کاریں بنانے کے بجائے وینٹی لیٹرز بنانا شروع کر دیے ہیں، رئیس امریکی ملکر کروڑوں ڈالر کا فنڈ جمع کر رہے ہیں تاکہ چھوٹے کاروباری حضرات کی مدد کی جائے، پچاس کمپنیاں دن رات کورونا کے علاج کیلئے ویکسین بنانے میں مصروف ہیں۔ کارنی ول بحری جہاز کمپنی نے اپنے بحری جہاز کورونا مریضوں کے اسپتال بنانے کیلئے دے دیئے ہیں۔ امریکی فوج کے ریٹائرڈ ڈاکٹرز بیماری سے لڑنے کیلئے میدان میں نکل آئے ہیں۔ نیوی کے دو جہازوں کو اسپتالوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ نووارٹس کمپنی نے 130ملین ملیریا کش دوائیں مفت تقسیم کی ہیں اور 20ملین ڈالر سے مستحق خاندانوں کی مدد کی ہے۔ ملیریا کش دوا کورونا کے علاج میں بہت مفید ہے اور اس موقع پر نووارٹس کمپنی اس دوا سے اربوں ڈالر کما سکتی تھی وہ مستحق افراد میں دوا مفت تقسیم کر رہی ہے۔ چین نے جس طرح کورونا کا مقابلہ کیا اور فتح حاصل کی اسکی تفصیلات آپ سب جانتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پاکستانی دولتمند، صنعتکار، امرا، اور ارب پتی کہاں ہیں؟ اسلامی تعلیمات کا اثر ہوتا تو دولتمند مسلمان ممالک اور دولتمند ارب پتی مسلمان جو دنیائے اسلام میں موجود ہیں، اس وقت تک اپنی دولت کا معتد بہ حصہ کورونا کیخلاف جہاد کیلئے وقف کر چکے ہوتے۔ دیکھا گیا ہے کہ قرآنی تعلیمات کے برعکس زیادہ تر مسلمان حریص ہیں، ان میں خدمت خلق کا جذبہ ناپید اور رضائے الٰہی کے حصول کی تمنا مفقود ہے۔ اپنی ذات اور عیش و عشرت پر کروڑوں خرچ کرنیوالے انسانی فلاح کو صرف حکومت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ امت کا تصور ایک خواب ہے اور خواب ہی رہیگا۔ دولت کے انباروں پر بیٹھے دولتمندوں کو ہرگز احساس نہیں کہ یہ عذاب غریب امیر میں تمیز نہیں کرتا۔ کینیڈا کے وزیراعظم کی نوجوان بیوی کورونا کے ہاتھوں اسپتال میں پڑی جس طرح بےبس اور شدید اذیت کا شکار ہے اسکی وڈیو وائرل ہو چکی ہے اور سبق آموز ہے۔
ہمارے حکومتی وسائل محدود ہیں، حکومتی بصیرت اور کارکردگی محدود ہے، عوام غفلت کا شکار ہیں، پچاس فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور وہاں خطرے کا الارم بجا ہی نہیں، دولتمند حضرات دولت کے زور پر محفوظ رہنے کے فریب میں مبتلا ہیں جبکہ یہ صرف وبا ہی نہیں، عذاب ہے اور عذاب بلاتمیز آتا ہے۔
یہاں تک لکھ چکا تو ایک عابد و زاہد فقیر منش مہربان کا فون آیا، ان کے پیغام کو صدقہ جاریہ سمجھ کر لکھ رہا ہوں باقی آپ کی مرضی۔ ان کا فرمان ہے کہ اس عذاب الٰہی کا مقابلہ کرنے کیلئے توبہ و استغفار کریں، اللہ پاک سے رحم طلب کریں، تھوڑے شہد میں سات دانے کلونجی ڈال کر روزانہ لیں اور دعائے ابراہیمیؑ جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، اس کی اس آیت کا ورد کرتے رہیں ’’ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب‘‘۔ بےشک اللہ بخشنے والا اور رحیم و کریم ہے۔