• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے وقت، کہ ’’کورونا‘‘ وائرس کے حملے اور اثرات سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر میں حکمتِ عملیاں ترتیب دی جارہی ہیں، اچھا ہوتا کہ وطنِ عزیز میں بھی قومی رہنمائوں کے اتفاق رائے سے ایسا لائحہ عمل سامنے آتا جس پر وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں سمیت ہر سطح پر متعین سمت میں پیش قدمی نظر آتی۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت بدھ کے روز پارلیمنٹ ہائوس میں منعقدہ وڈیو کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بھی موجودہ چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کا قیام بتایا گیا تھا مگر کانفرنس کے آغاز میں تقریر کے فوراً بعد وزیراعظم کا وڈیو رابطہ اچانک منقطع ہونے کے بعد جو صورتحال دیکھنے میں آئی، اچھا ہوتا کہ اس کی نوبت نہ آتی۔ وزیراعظم عمران خان کو کورونا سے پیدا ہونیوالی صورتحال کے تناظر میں داخلی اور بیرونی سطح پر یقیناً بہت سے ہنگامی رابطوں کی فوری ضرورت کا سامنا ہے مگر مذکورہ اجلاس کے لئے ان مصروفیات کے دوران وہ کسی طرح وقت نکال لیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اپوزیشن رہنمائوں کا یہ ردِعمل اور موقف فطری تھا کہ وزیراعظم کو ان باتیں سننے کے لئے رکنا چاہئے تھا۔ خود وزیراعظم نے اپنے خطاب میں شرکا کو کورونا وائرس کے خلاف حکومت کی طرف سے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ یہ جنگ پوری قوم کی مدد سے ہی جیتی جا سکتی ہے اور اس مقصد کے لئے تمام لیڈروں کو یکجا ہونا پڑے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ تمام سیاسی پارٹیوں کی آرا اور مشاورت چاہتے ہیں کیونکہ اس جنگ میں کامیابی دراصل پاکستان، اس کے تمام صوبوں اور تمام سیاسی پارٹیوں کی جیت ہوگی۔ وزیراعظم کی اپنے خطاب کے بعد روانگی کی وجہ این ڈی ایم اے کے سامان کی ترسیل سے متعلق ایک غیرمعمولی گفتگو تھی یا کوئی اور بات، اچھا ہوتا کہ وہ اس باب میں کانفرنس کے شرکا کو اعتماد میں لیتے تاہم موجودہ سنگین حالات کے تناظر میں وزیراعظم کو اگر کہیں جانا پڑ ہی گیا تھا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت انکے کئی معاونین کانفرنس میں موجود تھے اور اچھا ہوتا کہ سیاسی قائدین اس اجلاس کو ثمرآور بنانے پر توجہ دیتے۔ بدھ کے روز سیاسی قائدین کے واک آئوٹ کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اسے معمول پر لانے اور باہمی مشاورت کے لئے محض ایک وڈیو اجلاس نہیں بلکہ اجلاسوں کا ایک تسلسل شروع کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ مذکورہ نوعیت کے رابطے اس لحاظ سے بھی ضروری ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کی صورتحال اگرچہ تاحال پاکستان میں دوسرے ملکوں کی نسبت محدود ہے اور احتیاط کے تقاضوں کے باعث اچھی امیدیں بھی ہیں مگر ممکنہ مسائل کے حوالے سے کوئی بات یقین سے کہنا ممکن نہیں۔ اس باب میں مالیاتی ضرورتوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بدھ کے روز دیگر مالیاتی معاونین کے ہمراہ جو پریس کانفرنس کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو مزید قرض لینا ہونگے۔ اس ضمن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک 584ارب روپے دینے پر تیار ہو گئے ہیں جبکہ مالیاتی سپورٹ کے لئے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے الگ پیکیج کی بات کی جائے گی۔ بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کے کورونا وائرس کے لئے مختص 50ارب ڈالر سے امداد اس کی بعض شرائط کے باعث نہیں لی جارہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو لاک ڈائون کے آخری مرحلے یعنی کرفیو سمیت ہر صورتحال کے لئے مکمل طور پر تیار رہنا ہوگا۔ اس ضمن میں آمدنی سے محروم غریبوں کو گھروں پر راشن کی فراہمی کے لئے اسٹرکچر کی تیاری پر کام فوری شروع ہو جانا چاہئے جبکہ معاشی بحالی کے دوسرے اعلانات بھی عملی روپ میں ڈھلتے نظر آنا چاہئیں۔

تازہ ترین