• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے وزیراعظم ماضی کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی اور شدید چاہے گئے انسان ہیں۔ سیاست میں آنے سے قبل شہرت کے بےشمار قافلے ان کی راہوں میں نچھاور ہو چکے تھے۔ سیاست میں آئے، پھر حکومت میں آئے جو کانٹوں بھرا رستہ تو ہمیشہ سے تھا مگر خان صاحب کے لئے زیادہ کٹھن۔

کہ پے در پے مسائل، وبائی آفتوں کے علاوہ لوگوں کی توقعات راہ کو مزید دشوار بنانے پر معمور ہوں تو انسان کی فطری شادابی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ان کی شخصیت کی مقناطیسی قوت ابھی تک دلوں تک رسائی رکھنے میں کامیاب ہے مگر نہ جانے کیوں وہ گھبرانے، پریشان ہونے اور غصہ کرنے لگے ہیں۔

یہ کیفیت ان کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ میرا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ وزیراعظم اس سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کریں جو ان کی ذات کا حصہ بن چکی تھی پھر سب کچھ درست سمت چلنا شروع ہو جائے گا۔ حکومت سنبھالتے جو کام نہیں ہو سکا وہ اب کر دیں یعنی دیگر سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے لوگوں کو انتقامی نشانہ بنانے والوں کو تنبیہ کریں کہ اب چور چور کھیلنا ترک کردیں۔

آپ کی جماعت کا نام ہی تحریکِ انصاف ہے۔ اس میں تحریک اور انصاف باقی رہنا چاہئے اور نظر بھی آنا چاہئے۔ اگر آپ جزوی انصاف کریں گے تو انتقام کہلائے گا۔ کلی انصاف کرنا بہت مشکل ہے، اس لئے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا کی تنقید کو خندہ پیشانی سے سن اور برداشت کرتے ہوئے ملک اور معیشت کو وبا سے نجات دلائیں۔ یہ وقت مل کر چلنے کا ہے۔

میر شکیل الرحمٰن عام فرد نہیں، ایک دردمند پاکستانی، علم سے محبت رکھنے والے، دانش مندوں اور فن والوں کی قدر کرنے والے صوفی منش انسان ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جن کے روزگار ان کے اخبار اور چینل سے وابستہ ہیں۔

میں کتنی علمی، ادبی اور فن کے شعبوں سے وابستہ شخصیتوں کی زبانی اقرار سن چکی ہوں، جن کی ایک عرصہ جنگ نے ماہانہ تنخواہ مقرر کئے رکھی۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ میر شکیل الرحمٰن، پچھلے کچھ عرصے سے معرفت کے رستے پر گامزن ہستیوں سے بہت عقیدت رکھنے لگے ہیں۔

ایسی عقیدت وہی انسان رکھ سکتا ہے جس کے دل میں روحانی نور سے فیض یابی کی تمنا ہو۔ میں چونکہ خود اس رستے کی مسافر ہوں اس لئے اس بات کا اندازہ مجھے ذاتی اور باطنی طور پر ہوا۔

میری کبھی میر شکیل الرحمٰن سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں ہمیشہ انھیں پاکستان کو ترقی اور امن کے رستے پر آگے لے جانے کے خواہشمند ایک بڑے انسان کی حیثیت سے سراہتی رہی۔ ایک بار میں نے جنگ کے کسی فرد سے میر صاحب سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

ایک گھنٹے بعد مجھے فون پر بتایا گیا کہ میر صاحب کو بھی آپ کا نمبر اور تعارف بھیج دیا گیا ہے، آپ کل ان سے فلاں وقت بات کر لینا مگر وہ کل کبھی نہ آئی کیونکہ اسی دن سہ پہر کو میں نے موبائل کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف میر صاحب تھے۔ میں حیران ہوئی تقریباً آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت انھوں نے مجھ سے بات کی اور ان کی گفتگو کا لب لباب تصوف کی باطنی رہنمائی سے متعلق تھا۔

ان کے پاس سوال و جواب کے لئے اچھا خاصا ذخیرہ تھا، مجھے لگا انھوں نے اس موضوع پر زیادہ مطالعہ کیا ہو یا نہ مگر اسے دل سے سمجھا ضرور ہے۔ میر ان کی ذات کا لاحقہ ہے مگر وہ سچ مچ کے میرِ قافلہ ہیں، نئی منزلوں کی خبر دینے والے راستوں کے مسافر جو کمٹمنٹ اور جدوجہد سے ناممکن کو ممکن بنانے کا جتن کرتے ہیں۔

ایک فائٹر کے طور پر، اپنے نظریات کو ہتھیار بناکر، روشنی کو ترستی تاریک راہداریوں میں سورج کی لو کے لئے روشن دان کھوجنے کے عمل سے گزرنے والے۔ سماج کی سوچ میں جمی جمود کی بدصورتی کو تازہ ہوا سے شفاف کرنے والے میر صاحب میرے دھیان کی اسکرین پر ہمیشہ ایک آئیڈیل انسان کے طور پر عقیدت کا باعث بن کر موجود رہے ہیں۔

جس طرح جنگ صرف ایک اخبار اور جنگ گروپ محض میڈیا ہاؤس نہیں بلکہ میڈیا یونیورسٹی ہے، جہاں سے صحافت کی عملی پی ایچ ڈی ہوتی ہے، میر صاحب اس کے وائس چانسلر ہیں۔ یوں انکی گرفتاری صحافیوں کے استاد کی گرفتاری ہے۔ اس لئے آج ان کے اخبار سے وابستہ افراد ہی نہیں بلکہ تمام میڈیا کے باشعور افراد ان کے لئے آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں ابھی تک اگر کہیں مکالمے کی آزادی ہے، تو وہ جنگ نیوز کے صفحات اور جیو کی اسکرین ہے۔ یہ صفحات اور اسکرین، صحافت کی آڑ میں کوئی اور خفیہ کام نہیں بلکہ ایک مشن کے طور پر اظہار خیال کی آزادی اور تازہ افکار کی آبیاری کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستانی قانون کی حرمت اور حکومت پر اعتماد کرکے میر صاحب پیش ہوئے ورنہ کس نے پردیس جا کر انھیں گرفتار کرنا تھا مگر بغیر ضابطے پورے کئے گرفتار کر لئے گئے۔ بڑے لوگ ان سب لوگوں کا احترام کرتے جنہیں خدا نے معتبر مقام عطا کیا ہو۔

ایک نظریاتی اور اعلیٰ انسانی قدروں کے پرچارک انسان، جسے اگر صرف پیسہ کمانا ہوتا تو اور بھی بڑے کاروبار ہیں مگر اس میڈیا سے ان کا مشن جڑا ہوا ہے، اس کا تسلسل نہ توڑیں۔ لوگوں کو بولنے دیں، رونے دیں، سوال کرنے دیں۔ زبانیں چپ کرا دی جائیں، سوچ کے اظہار پر پہرے بٹھا دیے جائیں تو اظہار اندھے بہرے رستے پر چل کر ظلم کی شکل دھار کر چنگھاڑنے لگتا ہے اور معاشرہ گالی گلوچ اور مار دھاڑ کا عکاس بن جاتا ہے۔ آپ وزیراعظم ہیں۔

آپ کا حوصلہ اور برداشت بھی بڑے ہونا چاہئیں۔ اسپورٹس مین اسپرٹ کا اظہار کیجئے۔ تصوف کی زبان میں اسے روا داری اور احترامِ آدم کہتے ہیں۔ دعائیں

تازہ ترین