• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیوگو شاویز! تم بہت خوش قسمت ہو کہ تم پہ ان لوگوں نے بھی کالم لکھے ہیں جو تمہارے نظریئے سے اختلاف کرتے تھے، جو تمہاری طرح کا نظریہ رکھنے والوں کو گالیاں دینے سے گریز نہیں کرتے۔ تم ایک اسکول ماسٹر کے بیٹے تھے۔ میرا بیٹا اسپین میں بیٹھا مجھ سے بحث کر رہا تھا کہ آپ ایک آمر کی حمایت کیوں کر رہی ہیں۔ اس نے اپنے لئے تیسری دفعہ صدارت کا قانون بدلا۔ میرا پیارا بیٹا دراصل پاکستان کے حالات نہیں جانتا۔ ہم سب تیسری دفعہ وزیراعظم بننے اور بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں مگر ہم میں سے کسی نے قوم کے لئے ذرّہ برابر بھی ایسا نہیں کیا جیسا کہ شاویز نے اپنے ملک کے بچوں، عورتوں اور غریبوں کے لئے کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جو کچھ گورباچوف کے جانے کے بعد بلکہ اس کی حکومت کے دوران سوویت یونین میں ہوا تھا جس کا احوال بہت سی کتابوں میں آیا مگر جو کچھ مستنصر تارڑ نے لکھا وہ کہیں بیان نہیں ہوا۔ سرخ خواب کے اسیر جو پاکستان سے پڑھنے کیلئے ماسکو گئے تھے وہ کہیں پڑھائی کے دوران اور کہیں پڑھ چکنے کے بعد والگاکے کنارے یا شاید دریائے ڈینیوب کے کنارے کسی سوئیٹلانا کی زلفوں کے اسیر ہوئے اور تمام تر لاقانونیت دیکھنے کے باوجود زر کی کشید کی لذت کو واڈکا میں ملا کر استعمال کرتے رہے۔
ہیوگو شاویز! تمہارا ملک تو سوویت یونین کی طرح لوگوں کو لمبی قطاروں میں کھڑا نہیں چھوڑ دے گا کہ جو لوگ سردی کی شدت کے باوجود ایک ڈبل روٹی حاصل کرنے کے لئے صبر و شکر کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے، ان میں سے بیشتر جانتے تھے کہ سنہری بالوں والی لڑکیوں کی تجارت گلف ممالک کے علاوہ پاکستان میں بھی خوب چلی تھی۔ کامریڈ مستنصر! تم نے بہت لوگوں کو اپنی زمین پہ واپس لانے کی کوشش کی ہے۔ کسی کو بورے والا یاد آتا ہے، کسی کو چنگڑ محلّہ، کوئی محلّہ کمانگراں کی باقیات کو تلاش کر رہا ہے مگر ہر ایک کے ذہن میں بچپن کی آک کے پودے کی مائی، بوڑھیاں برابر یاد آتی ہیں۔ میں مستنصر! تمہیں اور ہیوگو شاویز کو ملا کر یاد کر رہی ہوں۔ تمہیں اللہ لمبی زندگی دے اور ”اے غزال شب“ جیسے ناول تم بہت لکھو کہ تمہارے ذہن میں وہ کبھی عارف نقوی ساری زندگی ماسکو میں گزار کر سفید بال کیسے واپس اپنی زمین پہ آ کر یہ بھولنے کی کوشش کرتا ہے کہ لینن کے مجسموں کو پگھلا کر صلیبیں بنانے کا کاروبار کر کے زر کثیر کمانے کے بعد اپنے اندر چبھن محسوس کر رہا ہے اور اگر عارف نقوی زندہ ہو کر سامنے آ جائے تو شرمندگی کے مارے کبھی بھی باغبان پورے کی عیسائی کالونی کی اجڑی اور جلی ہوئی شکل دیکھنے نہیں جائے گا کہ وہاں ہر گھر میں موجود صلیبیں جلا دی گئی ہیں۔
مصطفی اسلام ہو کہ وہ خانہ بدوش جو تمہارے ناول راکھ میں اور بہاؤ میں جھلکیاں دکھا کر غائب ہو جاتی ہیں۔ وہ اس ناول میں تمہیں بہت تنگ کرتی ہیں ساتھ ہی شفیق الرحمن کا دریائے ڈینیوب کا احوال تمہیں کبھی نہیں بھولتا ہے۔ تم کراچی کے حالات یاد کرتے ہوئے آج لکھتے تو عبّاس ٹاؤن کا حوالہ ضرور دیتے کہ جہاں شہلا رضا اور عبّاس حیدر رضوی کے رشتہ دار تک لقمہٴ بم بن گئے۔ مجھے اتنا اچھا لگا کہ تمہیں وہ انگلیاں یاد ہیں جو فٹ بال کے 24ٹکڑے جوڑ کر فٹ بال کو دنیا بھر میں نامور کر کے خود مگر بے نام رہے۔ تم نے فٹ بال سینے والی لڑکیوں کو سیالکوٹ میں نہیں دیکھا ہے جن کی پتلی انگلیوں کو بہتر ٹانکے لگانے کے باعث بہت محترم سمجھا جاتا ہے۔ تمہیں وہ زمانہ بلکہ پاکستان کے قیام کا زمانہ یاد ہے، جب ہندو اپنی جائیداد اور اپنی بستیاں چھوڑ گئے۔ آج کے پاکستان میں بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سندھ کے سیکڑوں گھرانے اپنی بچیوں اور اپنے مذہب کو بچانے کیلئے ہندوستان میں پناہ لے رہے ہیں۔ کاش تم کوئٹہ کا مکین بھی کوئی کردار بنا لیتے تو پھر جو کچھ ہزارہ قبیلے کے ساتھ ہو رہا ہے کہ ان کے شناختی کارڈ بھی دیکھ کر اور قطار میں کھڑے کر کے گولیاں ماری جا رہی ہیں۔ محلّے کے محلّے بارود سے اڑائے جا رہے ہیں اور وہ اپنے ملک میں خوف کی زندگی گزار رہے ہیں۔
مجھے بہت اچھا لگا جب تم نے الخیر کاشمیری کو اس کے پورے پورٹریٹ کے ساتھ یاد کیا۔ پورٹریٹ پہ مجھے یاد آ گیا کولن ڈیوڈ جس نے میرا پورٹریٹ بھی بنایا تھا۔ مجھے وہ دن بھی یاد آ گیا کہ جب کولن کے گھر کے باہر کھڑی تمام گاڑیوں کی ونڈ اسکرین جماعتیوں نے ہاکیوں سے توڑنے کے بعد گھر کے اندر آ کر بلاتخصیص مہمانوں اور پینٹنگز کو بھی ملیامیٹ کر دیا تھا اور پھر تمہیں اقبال حسین کا ریسٹورنٹ اور پینٹنگز بھی یاد آئیں مگر تم نے وہ زمانہ بھلا دیا جب اقبال حسین کو آرٹس کونسل میں ضیاء الحق کے زمانے میں نمائش کرنے سے اس لئے منع کیا گیا تھا کہ اس کی تصاویر میں جن عورتوں کے پورٹریٹ تھے انہوں نے دوپٹے پہنے ہوئے نہیں تھے اور پھر اقبال حسین نے آرٹس کونسل کے باہر سڑک پر اپنی پینٹنگز رکھ کر نمائش کی تھی۔
مستنصر! تم نے روس کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب نظم و ضبط ہوتا تھا۔ میری طرح اب تم آج کے روس کے ریزہ ریزہ ٹکڑوں میں پرانی یادوں اور زمینی تلخیوں کو یاد کر رہے ہو پھر تمہیں حبیب جالب بھی یاد آتا ہے اور مذہب کی افیون سے بیزاری بھی یاد آتی ہے۔ تمہارے کردار سردار قالب ہوں کہ لیلیٰ۔ وطن کو یاد رکھنے کے بعد پلٹ کر آ کر اب تو مشکل سے ہی مسجد میں نماز پڑھنے جائیں گے کہ دہشت گردوں سے کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اس لئے مجھے تمہارا ناول ”اے غزال شب“ ہیوگو شاویز کی ہمّت و حوصلہ اور یو این کے اجلاس میں امریکہ کو کھری کھری سنانے کی کہیں کہیں بازگشت بھی لگا۔ تم نے قوم کے سارے دکھوں کو تو مجسم کیا مگر سب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ الیکشن قریب ہیں کہ کیا پاکستان میں بھی کوئی ہیوگو شاویز سامنے آئے گا جو ملک کی تقدیر بدل ڈالے گا۔ میری آنکھیں اس وقت دھندلا گئی ہیں اس لئے کالم ختم کرتی ہوں۔
تازہ ترین